کوفہ اورکشمیر

حضرت سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوکوئی تم میں سے کوئی بری بات یا ظلم و زیادتی ہوتے دیکھے تو لازم ہے کہ اگر طاقت رکھتا ہو تو اپنے ہاتھ سے روکے۔اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل ہی میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔کشمیریوں پر ظلم و زیادتی کی اخیر ہو گئی ہے اور امت مسلمہ اپنا ایمان کا درجہ خود چیک کر لے کہ کون کہاں کھڑا ہے اور ظلم کو روکنے میں کس نے کتنا حصہ ڈالا ہے۔محرم کا سوگوار مہینہ گزر رہا ہے۔ واقعہ کربلا جابر ظالم کے سامنے ڈٹ جانا اور کلمہ حق سکھاتا ہے۔ پیغام حسینی مظلوم کا ساتھ اور ظالم سے جہاد کا سبق دیتا ہے۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ‘‘ مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی ہے۔ کوفہ ایک شہر کا نام نہیں بلکہ خاموش امت کا نام ہے۔ جہاں پر بھی ظلم ہو امت خاموش رہے وہ جگہ کوفہ اور لوگ کوفی ہیں۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ کا فرمان اور مقبوضہ کشمیر پر امت مسلمہ کی خاموشی چیخ چیخ کر کوفہ کی خاموشی کا ثبوت دے رہی ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو لائقِ ملامت سمجھتا ہوں ‘‘۔’’ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں بہتر ہے ‘‘۔حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں’’ جو کسی مومن کے کرب و غم کو دور کرے،خدا اس کے دنیا و آخرت کے غم و اندوہ کو دور کرے گا ‘‘۔اس قوم کوکبھی فلاح حاصل نہ ہوسکتی جس نے خدا کو ناراض کرکے مخلوق کی مرضی خرید لی۔ امام رضی اللہ کا یہ قول مبارک دور حاضر کے مسلم حکمرانوں کے حال پر نوحہ ہے۔ آپ نے فرمایا لوگو! رسول خداکا ارشادہے : جو دیکھے کسی ظالم بادشاہ کوکہ اس نے حرام کوحلال کر دیا ہے، بندگان خداکے درمیان ظلم وگناہ کرتا ہے اور پھر بھی نہ عمل سے اورنہ قول سے اس کی مخالفت کرتا ہے تو خدا پروا جب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اس کوڈال دے۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
وہ کام جو خلوص کے ساتھ انجام دیا جائے بظاہر وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو ، لیکن وہ کم نہیں ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ جو عمل مقبول بارگاہ خدا ہو، وہ کم ہو۔ مظلوم کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانا ایمان کا کمتر درجہ ہے جبکہ وقت جہاد آن پڑا ہے۔ مودی جلاد وادی کشمیر سے مسلمانوں کی اکثریت کو نسل کشی سے اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے تا کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کی قرارداد کا فیصلہ تبدیل کرا سکے۔ مگر کافر شیطان کی یہ ناپاک خواہش کبھی پوری نہ ہو سکے گی۔کشمیریوں کی نسل کشی انسانی زندگیوں کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پوری دنیا کو جھنجوڑنا ہوگا۔ مظلوم ہی مظلوم کا درد سمجھ سکتا ہے۔ انڈیا کے مسلمان اور سکھ کمیونٹی اٹھ کھڑی تو سیاسی اپوزیشن پہلے ہی مودی سرکار کے اس فعل کے خلاف ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام کمیونٹی بھی نسل در نسل ظلم و زیادتی سہتی چلی آرہی ہے۔ سیاہ فام قوم کو کشمیر ایشو پر ساتھ کھڑا کیا جائے۔ انسانیت کے نام پر اہل مغرب کے جذبات ابھارے جائیں اور یہ سب جبھی ممکن ہے اگر انڈیا اور پاکستان کے مسلمان کشمیریوں کی آواز بن جائیں۔ تمام پلیٹ فارمز استعمال کئے جائیں۔ اپنا وقت جذبہ لگا دیا جائے۔ آخر کو ہم سب نے ایک روز اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ کوشش کریں کہ ہمارا نام بھی یوسف کے خریداروں میں شامل ہو جائے۔حضرت یوسف کی خریداری کیلئے ایک بوڑھی عورت ’’ دھاگے کی اٹی ‘‘ لے کر چل پڑی تھی ، کسی نے پوچھا کہ اماں تم کہاں جارہی ہو؟ کہنے لگی ، یوسف کو خریدنے جارہی ہوں ، اس نے کہا اماں ! ان کو خرید نے کیلئے تو بڑے بڑے امیر آئے ہوئے ہیں وقت کے بڑے بڑے نواب آئے ہوئے ہیں امرا آئے ہوئے ہیں تو یوسف کو کیسے خرید سکے گی ، کہنے لگی کہ میرا دل بھی جانتا ہے کہ یوسف کو میں خرید نہیں سکوں گی لیکن میرے دل میں ایک بات ہے وہ کہنے لگا کونسی بات ہے ؟ کہنے لگی کل قیامت کے دن جب اللہ رب العزت کہیں گے کہ میرے یوسف کو خرید نے والے کہاں ہیں تو میں بھی یوسف کے خریداروں میں شامل ہو سکوں گی۔۔۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمارے سلف صالحین اپنی زندگی کی اتنی اتنی عبادتیں پیش کریں گے تو ہم اللہ کی بارگاہ میں اپنا یہ جذبہ ہی پیش کر سکیں کہ یا پروردگار مظلوموں کی رہائی اور آزادی کی جدوجہد میں ہمارا حصہ بھی قبول فرما لیں کہ شاید ہماری نجات ہو جائے۔اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں کشمیری بہن بھائیوں کی کربلا میں کوفی نہ بنیں قافلہ حسینی میں شامل ہو جائیں۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن