وزیر خارجہ نے کشمیر میں بھارتی بربریت کو انسانی حقوق کونسل کے سامنے رکھ دیا، بھارت مقبوضہ کشمیرمیں تمام حدیں پھلانگ گیا ہے،کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے

وزیر خارجہ نے انسانی حقوق کونسل میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ  مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے، عالمی برادری بھارتی مظالم رکوانے کے لیے کردار ادا کرے۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں انسانی حقوق کونسل سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ میں یہاں بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے عوام کی استدعا اور مقدمہ لے کر آیا ہوں جن کے بنیادی اور ناقابل تنسیخ انسانی حقوق کو بھارت روند رہا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک منظم انداز سے مقبوضہ خطے کے عوام کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دہائیوں سے بھارتی جبرو استبداد کا پہلے سے ہی شکار 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو ایک غیرقانونی آپریشن کے ذریعے گزشتہ 6 ہفتے سے عملی طور پر قید کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں ظلم وستم کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے اور پہلے سے موجود 7 لاکھ فوج کی تعداد بڑھ کر 10 لاکھ تک پہنچادی گئی ہے۔اس موقع پر وزیر خارجہ نے سوال اٹھایا کہ آخر ان سب کا مقصد کیا ہے؟ اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ‘جواب واضح ہے، ان حالات و واقعات نے ایک ملک کا اصل کردار بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے جو خود کو جمہوریت، وفاقیت اور سکیولرازم کا گڑھ بتانے کا ڈھونگ رچاتا ہے’۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 6 ہفتوں سے بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو کرہ ارض کے سب سے بڑے قید خانے میں تبدیل کردیا ہے جہاں بنیادی اشیائے ضروریات اور ذرائع مواصلات تک رسائی ممکن نہیں، دکانوں پرسامان فراہم نہ ہونے سے اشیا کی قلت ہوچکی ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی قلت ہے، بھارتی قابض افواج کے بلاامتیاز اور براہ راست بہیمانہ طاقت کے استعمال کی وجہ سے زخمیوں کو ہنگامی طبی امداد تک رسائی میسر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت 6 ہفتے سے مسلسل گھروں میں نظر بند اور قید ہے، ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سوال اٹھایا کہ کس قانون کے تحت 6 ہزار سے زائد افراد، (جن میں سیاسی وسماجی کارکنان، طالب علم اور پروفیشنلز شامل ہیں) کو گرفتار کیا گیا ہے؟ جبکہ ان میں سے بیشتر افراد کو جبری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اور جموں وکشمیر میں نافذ کالے قوانین کی آڑ میں بھارت کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘صرف میں تنہا نہیں ہوں جو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے بدترین ظلم اور انسانی حقوق کی کھلی پامالیوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرارہا ہوں، اس پر دنیا بول رہی ہے، غیرجانبدار، ممتاز عالمی میڈیا اور غیرجانبدار مبصرین جموں وکشمیر کے عوام پر ہونے والے بہیمانہ ظلم و ستم کی مسلسل رپورٹنگ کررہے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے بی بی سی کی 29 اگست کی رپورٹ جبکہ دی انڈیپنڈنٹ کی 2 سمتبر کی رپورٹ کا حوالہ سیا جن میں بھارتی افواج کی جانب سے مقبوضۃ کشمیر کے نہتے عوام سے روا رکھے جانے والے انسانیت سوز سلوک کاذکر کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے ایک اور رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں پیلٹ گنز کے استعمال سے نشانہ بننے والے افراد کے بارے میں حقائق بیان کئے گئے تھے، جن کا قابض بھارتی افواج سال ہا سال سے بے گناہ کشمیریوں کے خلاف اندھادھند استعمال کررہی ہے، جس سے بڑی تعداد میں بے گناہ کشمیری زندگی بھر کے لیے بصارت سے محروم ہوچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ زخمی اس خوف سے ہسپتال جانے سے ہچکچا رہے ہیں کہ قابض بھارتی افواج ان کے خلاف انتقامی کارروائی کریں گی اور انہیں وہاں سے گرفتار کرلیا جائے گا اور مزید تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں کسی گزرے زمانے یا قرون اولیٰ کی بات نہیں کررہا بلکہ یہ ظلم و ستم آج کے دن ہورہا ہے، یعنی اکیسیویں صدی میں جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یقیناََ مجھے انسانی حقوق کونسل کو یہ یاد کروانے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب کچھ متعدد عالمی انسانی حقوق سے متعلق قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے جس پر بھارت نے بھی دستخط کررکھے ہیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی جابرانہ اور ظالمانہ تسلط میں رہنے والے مظلوموں کی سچی داستان ہے جسے دنیا سے چھپانے کے لیے بھارت مضطرب ہے، یہ ‘دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت’ کا حقیقی چہرہ ہے، یہ اس ملک کا طرز عمل ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا آرزو مند ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس ظلم و تباہی کی جڑ بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے عوام کو ان کا حق خوداردیت دینے سے مسلسل انکار ہے، گزشتہ 7 دہائیوں سے چلا آنے والا یہ تنازع انصاف کے ساتھ سنگین مذاق ہے جو موجودہ بھارتی حکومت کے مذموم عزائم کی وجہ سے مزید سنگین تر ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ غاصبانہ اقدام بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے منشور میں واضح درج ہے کہ بندوق کے زور پر جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی قانون کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کا 5 اگست 2019 کا بھارت کا یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات غیر آئینی ہے کیونکہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسلمہ تنازع تسلیم کررکھا ہے، ان غیرقانونی تبدیلیوں کی وجہ سے خود بھارت کے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس نے جموں وکشمیر پر غاصبانہ اور غیرقانونی قبضہ کررکھا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات چوتھے جینیوا کنونشن کے منافی ہیں جو مقبوضہ خطے سے آبادی کی کسی دوسری جگہ منتقلی اور وہاں کسی دوسری جگہ سے آبادی کو لاکر بسانے کے عمل کی ممانعت کرتا ہے، یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے جبکہ یہ بھارتی دعویٰ قطعی جھوٹ ہے کہ یہ اقدامات اس کا ‘اندرونی معاملہ’ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘اصل حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر گزشتہ 70 سال سے زائد عرصہ سے ایک مسلمہ تنازع کی صورت میں موجود ہے جبکہ 16 اگست کو جموں و کشمیر کے تنازعے پر ہونے والا سلامتی کونسل کا اجلاس اس امر کی تصدیق ہے۔

بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کونسل کے موضوع گفتگو میں محض ‘ایک ملک کی مخصوص صورتحال’ نہیں بلکہ عالمی قانون، ایک مقبوضہ اور متنازع خطے کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق کرتا ہے، اس مقبوضہ خطے کی صورتحال کا براہ راست عالمی تشویش سے تعلق ہے جبکہ یہ بھارت کا نہ تو اندرونی معاملہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے عوام اس وقت بدترین صورتحال سے نبردآزما ہیں، کچھ نے کہا ہے کہ ‘کشمیر قبرستان کی طرح خاموش ہے’ اور کچھ کے مطابق یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے وہاں نسل کشی کے بہیمانہ اورانسانیت سوز واقعات بیان کرتے ہوئے جھرجھری آرہی ہے لیکن اس کے باوجود میں مجبور ہوں کہ یہ حقائق لازماً آپ کی خدمت میں پیش کروں۔

ان کا کہنا تھا کہ نسل کشی سے متعلق کنونشن کے حوالے سے مقبوضہ خطے میں کشمیری عوام ایک الگ قومی، نسلی اور مذہبی گروپ ہے، جن کی زندگیوں، عزت وآبرو اور بقا کو قاتلوں، عورتوں سے نفرت کرنے اور دیگر عقائد کے ماننے والوں سے شدید نفرت رکھنے والی حکومت سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں قائم ایک عالمی شہری تنظیم مقبوضہ جموں وکشمیر میں جینوسائیڈ الرٹ پہلے ہی جاری کرچکی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں صورتحال نسل کشی کے 10 درجے پہلے ہی عبور کرچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم وزیادتیوں کو چھپانے کی کوشش میں انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے بھارت ‘دہشت گردی’ اور ‘سرحد پار دہشت گردی’ کا جھوٹا لیبل استعمال کررہا ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے متعدد دوطرفہ اور کثیرالطرفہ طریقہ ہائے کار تجویز کئے ہیں جو بھارت کے خودساختہ دعووں کو مسترد کرتے ہیں اور انہیں جھوٹا ثابت کرتے ہیں، ہم نے حال ہی میں یہ تجویز بھی دی ہے کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصر مشن کے مبصرین کی تعداد دوگنا کردی جائے، جو لائن آف کنٹرول کی نگرانی کریں لیکن بھارت ان تجاویز کو مسترد کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ بھارت ایک مرتبہ پھر ‘فالس فلیگ’ آپریشنز کرے گا اور مبینہ طور پر دہشت گردی کے عفریت کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے اور اس کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ پاکستان پر حملہ بھی کرسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کا ایک بھارتی حربہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کے لیے 2003 میں ہونے والے معاہدے کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیاں ہیں، جہاں مسلسل آزاد کشمیر میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، علاوہ ازیں بھارت نے تمام عالمی انسانی بنیادی اقدار کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے یہاں کلسٹر بم اور بھاری ہتھیار استعمال کئے ہیں، اس عمل فوری بند ہونا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارتی جارحانہ اور ڈریکونین اقدامات کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے حامل جنوبی ایشیا اور اس سے بڑھ کر دنیا کے امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مسلسل اس صورتحال کا احساس دلایا جارہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے خطے میں وقوع پذیر صورتحال پر سلامتی کونسل کے ارکان کی مشاورت کا خیرمقدم کیا ہے، سلامتی کونسل جموں وکشمیر کے تنازع سے جڑے امن وسلامتی کے پہلووں سے آگاہ ہے لیکن اس حوالے سے انسانی حقوق کونسل کو ایک بڑا کردار ادا کرنا پڑے گا اور اسے بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام اٹھانا ہوں گے۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ‘ میں انسانی حقوق کونسل کی توجہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جون 2018 اور جولائی 2019 میں جاری ہونے والی دو مختلف رپورٹس کی جانب مبذول کراتے ہوئے زور دوں گا کہ ان رپورٹس پر کونسل غور کرے’۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں رپورٹس میں اس کونسل کو واضح سفارش کی گئی ہے کہ غیرجانبدار انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے جو جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیق کرے۔

انہوں نے کہا کہ ‘میں اس پلیٹ فارم پر پُرزور انداز میں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان ان رپورٹس میں دی جانے والی تجاویز کی تائید کرتا ہے’، ہمارا مطالبہ ہے کہ انسانی حقوق کونسل میں ان دونوں رپورٹس پر بالخصوص بحث ہونی چاہیے اور اس ایوان کو متفقہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ بھارت، پاکستان اور انسانی حقوق کونسل ان سفارشات پر عمل درآمد کرے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر بھارت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو اسے انکوائری کمیشن کے مقبوضہ وادی جانے کے راستے میں رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں جیسا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے سفارش کی ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ پاکستان مجوزہ انکوائری کمیشن یا دیگر طریقہ ہائے کار کو اپنی جانب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) تک رسائی دینے کے لیے تیار ہے جبکہ بھارت کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں بھی دوسری جانب بھارت رسائی دے۔

انسانی حقوق کونسل کو کشمیر کے معاملے پر فوری توجہ دینی ہو گی

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انسانی حقوق کونسل کو کشمیری عوام کی حالت زار، خطرے کی سنگین علامات اور انسانی المیہ کے حل کے لیے اس معاملے پر فوری توجہ دینا ہوگی۔

جس کے لیے کونسل درج ذیل فوری اقدامات کرے:

1۔ بھارت پر زور دیا جائے کہ وہ مقبوضی جموں و کشمیر میں فوری طورپر پیلٹ گنز کا استعمال اور قتل وغارت گری بند کرے، کرفیو اٹھائے، کمیونیکشن بلیک آوٹ ختم کرے، آزادی اور بنیادی شہری حقوق بحال کرے، سیاسی قیدیوں کو رہا کرے، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو نشانہ بنانا بند کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، انسانی حقوق کے مختلف قوانین اور ضابطوں کے تحت ذمہ داریاں پوری کرے جیسا کہ عالمی قانون کے تحت تقاضا ہے، بھارتی ڈریکونین ایمرجنسی قوانین جموں وکشمیر میں لاگو رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

2۔ بے گناہ کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنیگن خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے اقدامات کرے، اس تناظر میں انکوائری کمشن تشکیل دیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر نے تجویز کیا ہے۔

3۔ بھارت، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ہائی کمشنر کے دفتر کو اجازت دے کہ انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت، مینڈینٹ ہولڈرز، بھارت کے زیر تسلط جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کریں اور ان سے متعلق اپنی رپورٹ سے مستقل بنیادوں پر کونسل کو آگاہ کرے۔

4۔ بھارت پر زور دیا جائے کہ وہ اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا کو بلا رکاوٹ رسائی فراہم کر-


وزیر خارجہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘آج میں نے انسانی حقوق کونسل کے دروازے پر دستک دی ہے جو انسانی حقوق پر عالمی ضمیر کی محافظ ہے تاکہ بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے عوام کے لیے انصاف اور احترام کا تقاضا کروں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘آج اجتماعی انسانیت اور وہ اصول، جسے ہم سب تسلیم کرتے ہیں اور جو ہمیں انسان بناتا ہے، داؤ پر لگا ہوا ہے، سیاسی، تجارتی اور فروعی مفادات کی بنا پر ہماری سوچ اور اقدامات کو متزلزل نہیں ہونا چاہیے۔

ان کاکہنا تھا کہ ہمیں اس معزز ادارے کو عالمی منظر نامے پر شرمندہ وشرمسار ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، کونسل کے بانی رکن کی حیثیت سے پاکستان اخلاقی طورپر خود کو پابند سمجھتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے سے روکے لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں اس المیے سے لاتعلق نہیں رہنا چاہیے جو ہماری آنکھوں کے سامنے اس وقت رونما ہورہا ہے، ہمیں فیصلہ کن انداز میں اور پوری ثابت قدمی سے آگے بڑھنا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ تاریخ ناکام، ظلم پر مبنی مہمات، حقائق کو تبدیل کرنے کے لیے آبادی کے تناسب کی جنگوں سے بھری پڑی ہے، بھارت کو بھی اپنی کوشش میں منہ کی کھانی پڑے گی اور یہ کوشش ناکام ہوگی لیکن آپ کی ذمہ داری ہے کہ بھارتی قابض افواج کو بے گناہوں کا مزید خون بہانے سے روکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 7 دہائیوں سے بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے منتظر ہیں کہ کب استصواب رائے کا حق دینے کا ان سے کیا گیا وعدہ پورا کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس خطرناک ترین مرحلے میں غیرقانونی قبضے کا شکار، لوگوں کی مدد اور دادرسی میں اگر ہم ایک بار پھر ناکام ہوئے تو یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ ایک ایسی منصف ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتی۔

انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب کے آغاز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ادارے کی صدر کولی سیک، ہائی کمشنر بیچلیٹ اور دیگر حاضرین کو شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی حقوق کی عالمی اقدار کے فروغ اور تحفظ کے لیے ہائی کمشنر بیچلیٹ اور ان کے دفتر کی خدمات کو سراہتا ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میرے لیے یہ بھی اعزاز کی بات ہے کہ میں آج انسانی حقوق کونسل سے خطاب کررہا ہوں جو عالمی انسانی حقوق کی محافظ ہے اور اقوام متحدہ کا تیسرا فعال ستون ہے۔

شاہ محمود قریشی کی عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر و دیگر سے ملاقات
اس سے قبل وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جنیوا میں جاری اقوامِ متحدہ کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے موقع پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس سے ملاقات کی تھی۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق دوران ملاقات مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلسل کرفیو کے سبب انسانی جانوں کو درپیش شدید خطرات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر خارجہ نے ڈاکٹر ٹیڈروس کو آگاہ کیا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست سے مسلسل کرفیو نافذ کر رکھا ہے صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ خوراک اور ادویات تک میسر نہیں ہیں۔

علاوہ ازیں شاہ محمود قریشی نے سینیگال کے وزیر خارجہ احمدوبا سے بھی ملاقات کی اور انہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا۔

اس کے علاوہ او آئی سی گروپ کے سفراء سے ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں یکطرفہ طور پر اٹھائے گئے بھارتی اقدامات اور ان کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

بی جے پی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے کرفیو نافذ کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے مظلوم کشمیری گھروں میں محصور ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق نریندر مودی کی حکومت کے فیصلے پر پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود اور دوطرفہ تجارت معطل کردیئے تھے، بھارتی سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ بھارت جانے والی ٹرین اور بس سروس بھی معطل کردی گئی تھی۔

علاوہ ازیں گزشتہ دنوں پاکستان نے آئس لینڈ جانے کے لیے بھارتی صدر کو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت سے متعلق درخواست بھی مسترد کردی تھی۔
 

ای پیپر دی نیشن