متنازع اور غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی عکس بندی معمول بن گیا ہے اور نامناسب لباس و حرکات بھی آج کل کے ڈراموں کا خاصہ بن چکی ہیں جو اندرون بیرون ملک ناظرین کے لیے ذہنی اذیت اور کوفت کا سبب بن رہے ہیں۔سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ جائز اور حلال رشتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات کی بھی ترغیب دی جا رہی ہے۔ سسر بہو نند سالی دیور بھابھی جیسے رشتے میں جن میں نکاح حرام ہے، عشق و عاشقی دکھائی جا رہی ہے۔ طلاق اور بے راہ روی کو سانپ کا دودھ پلا کر پورا معاشرہ زہر آلود کیا جا رہا ہے۔ بیرون ممالک بسنے والے پاکستانی اپنی نسلوں کو پاکستانی ڈرامے دکھانے سے کتراتے لگے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے بچے مشرقی ڈراموں میں جب برہنہ مغربی ملبوسات اور جائز رشتوں کو ناجائز حرکات کرتے دیکھتے ہیں تو اپنے والدین کو حیرانی اور سوالیہ نظروں سے گھورتے ہیں۔ مغرب میں والدین اسلامی اور مشرقی روایات اور اقدار کی تعلیم و تربیت دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اسلامی مملکت پاکستان آدھا تیتر آدھا بٹیر بنتی جا رہی ہے۔ اردو ڈراموں میں انگریزی اور مغربی تہذیب کا احساس کمتری کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ لڑکیوں کی چست جینز اور برہنہ برائے نام شرٹ کو لبرل ازم کا نام دینا میرا جسم میری مرضی کی کھلی دعوت ہے۔پاکستانی بیہودہ ٹی وی ڈراموں سے پاکستان میں الا ما شا اللہ فحاشی احساس کمتری ، لوگ حسد جلن اور مقابلہ کی دوڑ کے سبب ڈیپریشن جیسے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔دولت کی ہوس دکھا دکھا کر رزق حلال اور قناعت شکر گزاری کا تمسخر اڑایا جاتاہے۔معاشرے میں صاحب لوگوں کے امراض ان کے تعلقات سے معلوم ہو جاتے ہیں۔پاور اور دولت والے کا کتا بھی بیمار ہو جائے تو عیادت کو پہنچ جاتے ہیں اور پاور دولت زوال پذیر ہو جائے تو اس کی بھلے ماں مر جائے پھر کوئی مفاد پرست اس کی دہلیز پر قدم نہیں رکھے گا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کی بد ترین مثالیں پاکستان میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔نیچے رہ گیا متوسط طبقہ تو الا ماشا اللہ وہ دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنے منہ پر طمانچہ مار رہا ہے۔کم کوئی بھی نہیں کسی سے۔پاکستان میں اب ہر چیز ہر رشتہ ہر تعلق دنیاداری والا ہو گیا ہے۔ لوگوں کی سوچ اور ذہنیت سیاسی ہو چکی ہے۔ یقین مانیں بیرون ملک تارکین وطن میں تبدیلی نہیں آئی لیکن پاکستان بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ مثبت نہیں منفی تبدیلی آئی ہے۔ مروت‘ رواداری‘ شرم حیا‘ اخلاص اخلاق‘ اعمال‘ رسوم و رواج و روایات‘ ادب لحاظ‘ برداشت‘ صبر‘ شکر کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ نہ رشتوں میں وہ اداسی رہی نہ جدائی کا وہ احساس پہلے جیسا رہا۔ نہ کسی کے پاس فرصت رہی نہ وقت نہ محبت میں وہ چاہت رہی۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والی اس منفی تبدیلی کو تارکین وطن زیادہ شدت سے محسوس کر سکتے ہیں۔ سال دو سال یا برسوں بعد وطن لوٹنے والے حیران پریشان ہوجاتے ہیں اور پرانے ماحول کو تلاش کرتے ہیں۔ پہلے دیار غیر سے پلٹنے والے کو ملنے کے لئے رشتے دار احباب دور دراز سے پہنچ جاتے تھے۔ اب قریب بسنے والے بھی چاہتے ہیں کہ انہیں جا کر ملا جائے وہ بھی اگر وہ گھر میں موجود ہوں۔ جس کو دیکھو کہتا ہے مصروف ہوں۔لیکن مصروفیت کیا ہے وضاحت نہیں کر پاتے۔ بچوں میں اپنے ماں باپ کے لئے وہ چاہت نہیں رہی جو گیمز اور ٹی وی میں ہے اور بڑے اپنی دنیاداری کے حسد و جلن کے سیاپے میں وقت و پیسہ کمانے اور لگانے میں غرق ہیں۔ پاکستان سیاسی اعتبار سے ہی نہیں سماجی و اخلاقی اعتبار سے بھی سیاسی ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادات و صدقات کے باوجود لوگ بے سکونی کا شکار ہیں۔ یہ وہ امراض ہیں جن کوحکومتیں بھی تبدیل نہیں کر سکتیں۔گورے امریکہ جیسے ملک میں فیملی سسٹم کی طرف لوٹ رہے ہیں اور دیسی معاشرہ میں فرنگی کلچر رائج ہو رہا ہے۔ اوپر سے حوروں کے نقشے کھینچنے والے الا ما شا اللہ مولوی حضرات نوجوان نسل کو والدین کے قریب کرنے کی بجائے دور کر رہے ہیں۔ فرائض و واجبات کا شعور نہیں لیکن بہو کو یہ سبق مولوی پڑھا دیتا ہے کہ ساس سسر سے الگ رہو۔ شوہر کا خیال رکھنا بھی تمہاری ذمہ داری نہیں وغیرہ۔یہ ان لڑکیوں کو سبق پڑھائے جا رہے ہیں جو اپنے بچوں کو پالنے سے بھی بیزار ہیں۔ سمارٹ فون ، ٹی وی ڈرامے ، فیشن بازی اور بازار کے پکوان ان کے شوق ہیں ، بچے بھی شوہر پالے اگر گھر میں موجود ہے۔سماجی اسلامی و اخلاقی اعتبار سے پاکستان بگڑ رہا ہے۔ تعلیمی درسگاہوں کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ بہت سے سماجی و اسلامی ایشوز ہیں میں اپنے یو ٹیوب اپ لوڈ کر دیتی ہوں۔ اب تو گھر وں سے بھاگنے والیاں بھی اپنی عمر نہیں دیکھتیں۔ پہلے شوہر پردیس اور بال بچہ وطن میں ہوتا تھا۔ اب بال بچہ مغرب کی شہریت لینے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے اور گھر والا کسی دوسرے ملک میں بیٹھا ہوتاہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازم دو سال پانچ سال کی چھٹی لے کر مغربی شہریت لینے پہنچے ہوتے ہیں اور ساتھ پاکستان سے سرکاری تنخواہ بھی مسلسل وصول کرتے ہیں۔ اس تمام ایکسر سائز میں بھی خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شوہر ادھر ادھر منہ مار لیتے ہیں اور بیوی بچوں کے جھنجٹ میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔جوان اولاد کی نافرمانی کے پس پشت متعدد اسباب ہوتے ہیں۔ طلاق اور منشیات میں اضافہ بھی تشویشناک صورت اختیار کر رہا ہے۔نوجوان نسل ملک وملت کے مستقبل کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے، جس پر ملک وملت کی ترقی وتنزلی موقوف ہے، یہی اپنی قوم اور اپنے دین وملت کے لیے ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دے سکتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان کی تباہی، قوم کی تباہی ہے، اگر نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجائے تو قوم سے راہِ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے اور نوجوان نسل کی تنزلی کا سبب اس کے اپنے گھر والے ہیں۔ علمائ، والدین، سرپرست اور اساتذہ کے ساتھ حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی بربادی کو روکنے اور ان کے اخلاق وکردارکو بہتر بنانے کے مواقع فراہم کرے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس کے صدر نے شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے نوجوان کردار سے عاری ہوچکے ہیں اس لئے ہمیں جنگ سے دوچار ہونا پڑا ‘‘۔ اخلاق و کردار ہی ہیں جو انسانی نسل کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، جب کوئی قوم اخلاق سے محروم ہوجاتی ہے تو کوئی طاقت اسے ترقی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔آج کے پاکستان میں نہ وہ چاہت رہی نہ وہ راحت باقی رہی ، سب کچھ بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔اوپر سے نیچے تک بس اک دوڑ لگی ہوئی ہے جس کا نہ کوئی اینڈ ہے نہ سرا اور اس گمراہی میں پاکستانی شو بز کا بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان کی شو بز انڈسٹری کو اخلاقیات اور مذہبی و روایتی اقدار کا پیمانہ متعین کرنا ہوگا ورنہ پاکستان کی نئی نسل مکمل طور پر کنفیوژ اور گمراہ ہو جائے گی۔