پی سی بی فیصلے کا احترم کرتا ہے تجاویز کا نہیں!!!!

اقبال قاسم نے کرکٹ کمیٹی کی سربراہی چھوڑ دی ‘ سربراہی جیسی بھی ہو کوئی بات مانے یا نہ مانے عہدہ چھوڑنا مشکل ہوتا ہے لیکن اقبال قاسم نے نمائشی عہدہ رکھنے کے بجائے پی سی بی حکام کو آئینہ دکھا کر گھر بیٹھنا مناسب سمجھا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ میں کسی اہم عہدے پر کام کر رہے تھے ماضی میں بھی وہ اہم ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ اس مرتبہ ان کی آمد کا واحد مقصد محکمہ جاتی کرکٹ کی بحالی تھا کوشش کے باوجود وہ کامیاب نہ ہو سکے ان کے استعفٰی کی کچھ اور وجوہات بھی ہوں گی۔ پی سی بی نے اقبال قاسم کا استعفی قبول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بورڈ ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ اقبال قاسم اس لیے مستعفی ہوئے ہیں کہ ان کی تجاویز کا احترام نہیں کیا گیا۔ اقبال قاسم کیلئے تجاویز کا احترام اہمیت رکھتا‘ انہوں نے اس راستے کا انتخاب کیا جہاں ان کی عزت برقرار رہے۔ کرکٹ بورڈ بھی ان کا احترام کرنا ہو گا لیکن اس عہدے پر تجاویز کا احترام زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ موجودہ انتظامیہ جیسی صلاحیت دنیا میں کم لوگوں کے پاس ہے ایسے باصلاحیت افراد دنیا میں کم ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ان کے معیار تک پہنچ پاتے ہیں اور جو نہیں پہنچ پاتے پھر وہ الگ ہو جاتے ہیں۔ ایک صلاحیت وہ ہے جو جس کی بنیاد کارکردگی پر ہوتی ہے ایک صلاحیت وہ ہے جسے بناوٹی کہا جاتا ہے اور باتوں کے ذریعے اسے ثابت کرنے یا چند بااثر افراد کو ساتھ ملا کر نقل کو اصل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے موجودہ انتظامیہ کا شمار باتوں کی حد تک تو دنیا کے بہترین افراد میں کیا جا سکتا ہے، ہاں یہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے بھی مہارت رکھتے ہیں، رنگ و روغن بھی کمال کا کرتے ہیں، دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور ثابت کرنا ہو تو ان سے مدد لی جا سکتی ہے اس معاملے میں یہ سب کو حیران کر دیں لیکن جب بات عملی اقدامات کی ہو تو وہاں یہ ناکام افراد میں بھی نمایاں نظر آئیں گے بلکہ ہمیشہ تین بہترین نمبروں پر ضرور دکھائی دیں گے۔ ہم کر رہے ہیں، ہم کر دیں گے جیسے جملے روزانہ سننے کو ملتے ہیں لیکن اگر پوچھ لیا جائے کہ کچھ کیا بھی ہے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ملے گا کہ لوگ غلط باتیں پھیلاتے ہیں سیاست کرتے ہیں اور روڑے اٹکاتے ہیں۔ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ نئے آئین کو ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے ابھی تک ایسوسی ایشنز قائم نہیں کر سکے، اپنے ہی ملازمین کے ساتھ ایسوسی ایشن رجسٹرڈ کروا رہے ہیں، پی ایس ایل متحدہ عرب امارات میں ہوتی تھی تو اخراجات کم تھے اپنے ملک آئی ہے تو اخراجات بڑھ گئے ہیں، پاکستان سپر لیگ یو اے ای میں کھیلی جاتی تھی تو فرنچائز مالکان کو نقصان کم ہوتا تھا میچز پاکستان میں ہو رہے ہیں تو نقصان بڑھ گیا ہے۔ بورڈ کرکٹ میں کرپشن پر زیرو ٹالرینس پالیسی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پاکستان سپر لیگ میں جوا کروانے والے پارٹنر کی معذرت کو سراہتا ہے۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے دعویٰ کے ساتھ اقتدار میں آنے والے ابھی تک اختیارات پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں، اختیارات پر چند افراد کا قبضہ ہے اور اسے کارپوریٹ کلچر کا نام دے کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پورے ملک میں کہیں کلب کرکٹ نہیں ہو رہی، سٹی کرکٹ کا کوئی وجود نہیں ہے، محکموں کی کرکٹ کو بند کر کے سینکڑوں کرکٹرز کو بے روزگار کر دیا گیا ہے لیکن بتایا جا رہا ہے کہ ہم روشن مستقبل کی طرف سفر کر رہے ہیں ہاں مستقبل روشن ضرور ہو رہا ہے لیکن ان چند افراد کا جنہیں لاکھوں ماہانہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ دہائیوں کی محنت سے بننے والے کرکٹ گراؤنڈز تباہ ہو رہے ہیں، گراؤنڈ سٹاف کو فارغ کر دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ملکی کرکٹ میں نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہاں نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے جس میں کرکٹرز نہیں ہونگے البتہ لاکھوں ماہانہ پر کرکٹ کوچز ضرور نظر آئیں گے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کامیاب کرکٹرز کی کوچنگ منظر نامہ بدل دے گی وہ یاد رکھیں کہ کوچ اسے سکھا سکتا ہے جسے کچھ آتا ہو گا یا اس وقت سکھا سکتا ہے جب کھیلنے والے ہوں گے انڈر نائینٹین کے ٹرائلز نے نام نہاد یا خود ساختہ پیشہ ور افراد کو بے نقاب کر دیا ہے۔ صرف کوچز سے منظر نامہ بدلنے کی امید رکھنے والوں کو دنیائے کرکٹ کے عظیم بلے باز سر ڈان بریڈ مین کے وہ الفاظ ضرور یاد رکھنے چاہییں جب انہوں نے برطانوی شاہی خاندان کے ایک بچے کو بھاری معاوضے کے عوض کوچنگ کی ذمہ داری دی گئی اور سر ڈان بریڈ مین نے چند دن بعد پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ جو چیز اس میں خدا نے نہیں ڈالی وہ میں کیسے ڈال سکتا ہوں۔ یہ دنیا کا واحد کرکٹ بورڈ ہے جس کی توجہ کرکٹرز تیار کرنے کے بجائے کوچز تیار کرنے پر ہے۔ جس تعداد میں نا تجربہ کار کوچز کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں انہیں تو پیسے دینے کے بجائے ان سے پیسے لینے چاہییں کہ بورڈ انہیں کوچنگ سکھا رہا ہے۔ وقار یونس فاسٹ باؤلرز کیلئے چار روزہ کرکٹ کو ضروری قرار دے رہے ہیں لیکن وہ خود کوچنگ صرف قومی ٹیم کی سطح پر کرنا چاہتے ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ فاسٹ باؤلرز کیلئے ضروری ہے تو کوچ کیلئے بھی اس سطح کی کرکٹ اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے لیکن چونکہ وقت بدل چکا ہے، کارپوریٹ کلچر کا دور دورہ ہے اب وقت دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور ثابت کرنے کا ہے اب وقت کھلاڑیوں کی بسوں پر سوار ہوتے، بسوں سے اترتے، پرستاروں کی تصاویر و وڈیوز بناتے، کھلاڑیوں کے انٹرویوز دکھا کر لوگوں کو مصروف رکھنے کا ہے سو خوش رہیں کہ کھلاڑیوں کی سرگرمیوں سے باخبر ہیں۔ معیار بدلے ہیں، طریقے بدلے ہیں بالکل ویسے جیسے تجاویز کو احترام نہیں دیا جاتا لیکن فیصلے کا نمائشی احترام ضرور کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...