محمد علی جناحؒ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک بڑے لیڈر، بڑے رہنما تھے۔ اگرچہ بیرسٹر تھے، وکالت بھی پائے کی کر رہے تھے۔ لیکن جب اقبالؒ نے دیکھا کہ غیر مسلموں کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ ہتک آمیز ہے اور اگر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایشیاء میں نیا خطہ یا ملک تشکیل نہیں پاتا تو یہاں کے مسلمانوں کی زندگی اور بھی مشکل اور اجیرن بن جائیگی۔ یوں انہوں نے ایک نئی مملکت کا سہانا خواب دیکھا، آزادی کے اس نئے کٹھن دشوار گزار راستے کو طے کرنے کیلئے محمد علی جناح کا انتخاب کیا جو ذہانت و فطانت کے لحاظ سے متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں ہمہ گیر شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اقبال نے محمد علی جناحؒ سے بات کی تو جناح نے جدوجہد آزادی کا علَم تھامنے کی حامی بھر لی، ذمہ داری اٹھائی کہ وہ آزادی کے اس مشن کی ناصرف قیادت کرینگے بلکہ اس کو ہر حال میں پائیہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔پھر اقبالؒ کے اس خواب کی تعبیر کیلئے محمد علی جناحؒ آگے بڑھے، یوں ایک قافلہ بنتا گیا۔ آزادی کا قافلہ۔ مشن گو کہ بڑا کٹھن تھا لیکن محمد علی جناحؒ کو مشکلوں سے لڑنے اور اُس سے ٹکرانے کی عادت تھی۔ انہوں نے آزادی کے مشن کو پورا کرنے کیلئے وکالت بھی چھوڑ دی، اپنے آپ کو جدوجہدِ آزادی کیلئے وقف کر دیا۔ وہ ایک طوفان بن کر ابھرے۔ انہوں نے آزادی کا پیغام ہندوستان میں بسنے والے ہر مسلمان کو دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ برطانیہ نے اگر متحدہ ہندوستان کو آزاد کیا اور مسلمان اپنے لیے نئی مملکت کا وجود عمل میں نہ لا سکے تو انہیں ہندوستان میں ساری زندگی ہندوئوں کا غلام بن کر رہنا پڑے گا۔ یہی وہ فکر اور آزادی کے تصور کا نقطۂ آغاز تھا کہ مسلمان اکٹھے ہوتے چلے گئے اور ہندوستان میں قائداعظم کی قیادت میں آزادی کی ایک بڑی تحریک بن گئے۔اسی دوران چودھری رحمت علی نے مسلمانوں کی اس نئی مملکت کا نام بھی تجویز کیا جو ’’پاکستان‘‘ تھا۔ محمد علی جناحؒ اور اُن کے رفقاء کو بھی یہ نام پسند آیا۔ اس نام کی منظوری دی گئی۔ جھنڈے کا رنگ اور ڈیزائن بھی تجویز کیا گیا۔ اقلیتوں کے حوالے سے سفید رنگ کو اہمیت دی گئی۔ تصور دیا گیا کہ اس نئی مملکت میں اقلیتوں کو بھی برابر کی آزادی اور آزادی کے تمام سماجی اور مذہبی حقوق حاصل ہوں گے۔ محمد علی جناح کو قائداعظم کا اعلیٰ لقب بھی دیا گیا اور وہ ملت کے رہبر اور پاسبان کے طور پر جانے اور پہچانے جانے لگے۔
قائداعظم ایک دھان پان سی شخصیت کے مالک تھے۔ لیکن بلا کے ذہین، جرأت مند اور فیصلوں کے اعتبار سے انتہائی توانا تھے۔ جو فیصلہ کرتے، سوچ سمجھ کر کرتے اور پھر مضبوطی کے ساتھ اُس پر قائم ہو جاتے۔ انہوں نے برٹش حکمرانوں کو بھی قائل کر لیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو آزادی دئیے بغیر انہیں چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکتا۔ تاہم اس آزادی کی راہ میں ہندو لیڈر مسلسل روڑے اٹکا رہے تھے لیکن قائداعظم محمد علی جناح جب بھی لارڈ مائونٹ بیٹن اور گاندھی کے ساتھ بات چیت کیلئے مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھتے تو اپنی گفتگو اور دلائل کے ساتھ انہیں قائل کر کے ہی اُٹھتے۔ یہ ایک بڑی اور جہدِ مسلسل کی داستان تھی۔ قائداعظم جہدِ مسلسل کی اس داستان کو کامیابی کا عنوان دینا چاہتے تھے جس کیلئے اُنکی بھرپور جدوجہد اور کوشش جاری رہی۔ 1947ء آیا اور پھر 14اگست۔ یہ وہ دن تھا جب متحدہ ہندوستان کے وجود سے ایک نئی مملکت کا ظہور ہوا۔ اس نئی مملکت کو ’’پاکستان‘‘ کے نام سے جانا گیا۔ آج 72 سال ہو گئے ’’پٖاکستان‘‘ کو بنے ہوئے کئی طوفان آئے۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی سازشوں اور مشکلات میں گھِرا رہا۔ دشمن نے ایک عالمی سازش کے تحت 1971ء کے دوران اسے دولخت بھی کیا۔ لیکن قائداعظم کا ’’پاکستان‘‘ پھر بھی دنیا کے نقشے پر موجود رہا اور انشاء اللہ رہے گا۔ یہ قائداعظم محمد علی جناح کا ہی احسان ہے کہ ہم اس دھرتی پر آزادی سے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا ہم جتنا بھی شکریہ ادا کریں، کم ہے۔ انہوں نے ایک ایسے وقت میں آزادی کا بیڑا اٹھایا جب کوئی انگریز یا ہندو کے سامنے کھڑا ہونے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بے سرو سامانی کے عالم میں جس جدوجہد کا آغاز محمد علی جناح نے کیا۔ اُسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائیگا۔ آج ہم پاکستان میں ہیں، ایک آزاد ملک میں۔ لیکن قائداعظم نے ہمیں جو نصب العین دیا، جینے کا جو راستہ بتایا۔کیا ہم اس پر پوری طرح عمل پیرا ہیں؟ 11ستمبر ہمیشہ آتا ہے ہم اس دن کو قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے حوالے سے مناتے ہیں۔ وہ اس دن ہم سے جدا ہو گئے۔ وہ واقعی عظیم تھے۔ نہ ہوتے تو آج ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری نہ ہوتے۔ قائد کا ہم پر یہ احسان ہے۔