جب انسان کو کسی کام کے کرنے سے منع کیاجاتاہے تو اس کے اندر اس کام کو چھپ کر کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ یہ ایک انسانی جبلت ہے، میری اس بات کا تعلق اخلاقی یاغیراخلاقی حرکت سے نہیں ہے۔ روزمرہ کے احساسات ہیں جوکہ ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں، جیسے کہ1980کی دہائی میں گھر میں اردو ڈائجسٹ آیا کرتے تھے اور گھر کی بڑی بوڑھیاں اس کو لے کے پڑھنے بیٹھ جاتیں۔ اس زمانے میں کتابوں سے لوگوں کی بڑی رغبت تھی اور انسانی رشتوں اور کتابوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ نویںیا دسویں جماعت کے لڑکے لڑکیوں کویہ ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق ہوتا تھا جبکہ ان کو منع کیاجاتاتھا اور وہ لوگ رات کو تکیے کے نیچے ڈائجسٹ چھپالیتے اور رات کو سکول کی پڑھائی کے بہانے کتابوں میں رکھ کے پڑھا کرتے، اس وقت باتھ روم بھی ان رسالوں کو پڑھنے کیلئے ایک محفوظ جگہ تھی۔ منع کئے ہوئے کام میں دلچسپی اور اسے چھپ کے کرنے کیلئے یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ میرے سامنے ایک افسانوں کی کتاب ’’یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے‘‘ کے عنوان سے پڑی ہے جس کے مصنف منیراحمدفردوس ہیں۔ منیر احمد فردوس نے بہت سوچ سمجھ کے یہ نام رکھا ہے، وہ اپنے گرد رہنے والے لوگوں کی سوچ سے واقف ہیں،وہ معاشرے کی ہٹ دھرمی پہ گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں ،اس لیے انہوں ’’نہ‘‘ کا صیغہ استعمال کرکے ’’ہاں‘‘ کو لازمی کرلیاہے۔ افسانہ ادب کے نثری صنف ہے۔ چھوٹی کہانی کو لغت کے اعتبار سے افسانہ کہتے ہیں۔ اس میں زندگی کا جُز پیش کیاجاتاہے جب یہ جُز کا سفر کُل کی جانب بڑھتاہے تو افسانہ ناول کی صنف میں داخل ہو جاتاہے۔ افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعے پر تاثرات کے ساتھ تحریر کیاجاتاہے، اس میں بے جامناظر اور تمہید کا استعمال نہیں ہوتا۔ افسانے میں معاشرے کے حقائق پہ گہرے نقاط بیان کئے جاتے ہیں کسی ایک احساس کے تحت افسانہ نگار اچھائی یا برائی کو لفظوں کے پیراہن میں سجاکر پیش کرتاہے۔ جہاں خوشی ہو یا اچھائی ہو وہاں افسانہ نگار قاری کے پڑھنے کو لطیف جذبات اور دھنک رنگ جذبے بیان کرتاہے۔ جہاں دکھ، ظلم، زیادتی اور ناانصافی ہو وہاں قاری کو گریہ زاری پہ آمادہ کرنے کیلئے زخم رسیدہ جملوں کا استعمال اور ظلم کے خنجر سے قبریں کھودنے تک کو ترجیح دیتاہے۔منیر احمد فردوس نے بھی یہی کیاہے۔ دنیا بھر میں ہرنسل ومذہب ہر زبان میں داستان سرائی چلی آرہی ہے۔ جب ایک انسان نے دوسرے انسان کو اپنے احساسات واقعے کی صورت میں بتائے کہانی کا آغاز اسی لمحے سے ہوگیا۔ جب گفتگو، آب بیتی یا جگ بیتی کے میدان میں داخل ہوجائے تو رنگ وآہنگ اور اسالیب کے سانچے میں ڈھل کے کہانی، افسانہ اور ناول بن جایاکرتاہے۔
منیر احمد فردوس نے قارئین کی دلچسپی کو واقعے کی لذت عطا کی ہے۔ خیالی اور تصوراتی عناصر میں حقائق کا زہر اور شیرینی ملاکر مافوق الفطرت عناصر کے ہوشربا اور طلسماتی کردار کو جلوہ افروز کیااور اپنے قارئین کیلئے انکی علامتی کہانیوں کو معنی اور بنجر، سادہ اور بے رنگ کینوس کوافسانوں میں من پسند رنگوںکی آمیزش کیلئے برش ہاتھ میں تھمادیاہے۔منیراحمد فردوس وہ خوش قسمت افسانہ نگار ہیں جنہوں نے ہمارے بہت ہی پیارے محمدحامدسراج (مرحوم) اہل قلم جوکہ افسانہ نگاروں میں اپنا نام آپ رکھتے ہیں۔ انکی توجہ کی چھائوں میں بیٹھ کے زندگی کی بہت سی دھوپ کاٹی ہے اس لیے ان کا انتساب بھی انہی کے نام لکھاہے۔انتساب کچھ یوں ہے کہ ’’جو وقت کی فصیل سے جھانکتے ہوئے میری کچھ کہانیوں پر مجھے شفقت سے گھورتے رہتے ہیں اور میں ان سے آنکھ بچاکر کرداروں میں گھرا کہانیاں لکھتا رہتا ہوں‘‘۔منیر احمد فردوس کے افسانوں میں اپنے گریبان کے چاک کرنے سے لیکر اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنے تک گالیوں سے بھری بدبودارزبان سے لیکر ماں کی خاطر اللہ کے گھر سے چوری اور پھر اللہ سے ہی سوال کیا کہ کیا میں چور ہوں؟ کا معصومانہ انداز، خوابوںمیں گھورتی سرخ آنکھوں کا آئینہ ذات پہ منعکس ہونا اور پریشانی کی دلدل میں دھنستے چلے جانا اور ان آنکھوں کا پیغام کبوتر کی چونچ سے کالی ڈوری میں بندھے خط کی طرح اپنے گلے میں ڈال کر قریہ قریہ پھرنا، افسانہ ’’گہرا کنواں‘‘ کی لطافت ومحبت کا یکدم ایک تعفن زدہ احساس میں ڈوب جانا ان کے قلم کی کاٹ کو سراہنے کیلئے کافی ہے۔ منیر احمد فردوس نے کچھ ایسے موضوعات کو بھی چھیڑا ہے جس کو معاشرہ یا قاری ہضم نہیں کرسکتا، اگر اسے کوئی بھی اپنے ادبی وجود میں انڈیلتا ہے تو یقیناً یا تو اسے قے ہوجائیگی یا وہ شدید بدہضمی کا شکار ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ وہ کینسر کا مریض ہی بن جائے۔ جیسے کہ’’ نفرت کی اذانیں‘‘ ’’یہ کہانیاں پڑھنا منع ہے‘‘’’ ہونٹوں کا رشتہ‘‘ وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ’’ آنکھیں خوب چمک رہی تھیں‘‘ میں منیر احمد فردوس نے ایک ایک موضوع قلم کی نوک سے صرف چھیڑاہے ایسے موضوعات کو سعادت حسن منٹو نے بڑی دلیری سے معاشرتی غیراخلاقی کردار کی کڑی دھوپ میں پہروں سزا کے طور پر کھڑا رکھا۔ ’’ماسٹردین محمد‘‘ میںمعلم اور معاشرے کے اثرورسوخ والے خاندان کے بیچ، اللہ کے انصاف کو آنسوئوں، رقت آمیز لہجے ، خاموش دعا اور بدعا کو یوں بیان کیا جیسے رات بھر شبنم روتی رہی اور صبح نودمیدہ کلیاں کھِل کر جہاں گلاب بنیں وہاں پھول توڑنے والوں کے ہاتھ کانٹوں سے زہرکشید کرنے لگے اوروہیں انصاف ہوگیا۔معاشرے میں زہرآلود بکھرے ہوئے انسان طبقاتی تقسیم، تفرقہ، تعصباتی رویے، غریبی، امیری، محبت میں نہال ہوجانا، درخت کی شاخوں میں گھونسلے لگانا اوراس کے تنے میں میخیں ٹھونکنا یہ وہ تمام کردار ہیں جو منیر احمد فردوس کے افسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ہنستا مسکراتا چوڑاچکلا پرجوش جوان زندگی میں کتنے درد آمیز لمحات میں جی چکا ہوگا اسے دیکھ کے اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ وہ نئے ذائقے کی کہانی میں اپنی زندگی کی تمام تلخیاں نہیں انڈیل پایا کیونکہ ابھی اسے کچھ ذائقے نئے تیارکرنے ہیں، نئے لہجے کے اسرار ورموز سے قلم کے ذریعے ادب کی رسوئی دہکانی ہے، اس لیے اس نے بہت کچھ اپنے اندر ہی ذخیرہ کرلیاہے۔ نجانے وہ ذخیرہ اندوزی کے جرم میں کب پکڑاجائے کہ وہ خود کو سزا دے اور ایک نئی افسانوں کی تصنیف منظرعام پہ آجائے۔