ملک میںیوںتو کئی معاشرتی خرابیاں عروج پر ہیں جس میں اخلاقی برائیوں سے لے کر سیاسی مسائل اور دو نمبریاں تک سب کچھ شامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں سفارش، رشوت، اقرباء پروری، دوسروں کا حق مارنے ،چور بازاری کرنے اور ایسی ہی کئی لعنتیں موجود ہیں۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں جائز کام کے لیے بھی چارونا چار سفارش کا سہارا لینا پڑتا ہے ورنہ آپ اپنے حق سے بڑی آسانی سے محروم کر دیے جاتے ہیں لیکن ان پوشیدہ یا بظاہر نظر نہ والی برائیوں کے ساتھ ساتھ ایک ہر وقت اور ہر جگہ نظر آنے والی برائی جو آپ کی سڑکوں، آپ کے چوراہوںمیں ہر وقت نظر آتی ہے وہ ہے گداگری ۔ اسلام نے جہاں خیرات اور صدقات کی انتہا درجہ تلقین کی ہے وہیں مانگنے کی شدت سے ممانعت بھی فرمائی ہے۔روایت ہے کہ نبی پاکﷺ کی محفل میں ایک شخص آیا اور بھیک مانگی کہ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں تو آپﷺ نے اُس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ ہے اُس نے عرض کی کہ ایک پیالہ جس میں میں پانی پیتا ہوں اور ایک کمبل جسے اوڑھ کر میں سوتا ہوں آپﷺ نے وہ دونوں چیزیں منگوائیں اور اُس کی بولی لگا کر انہیں دو درہم میں فروخت کر دیا ایک درہم اسے دیا کہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے اور دوسرے سے کلہاڑا اور رسی لینے کی تاکید کی کہ اس کلہاڑے سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے روزگار کا بندوبست کرے چنددن بعد وہ شخص آیا تو بہت خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کام میں برکت ڈالی اور وہ اب بھیک مانگنے کی بجائے خود کما رہا تھا تو یہ ہے اسلام میں محنت کی عظمت اور محنت کا حکم۔ مکہ سے مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو بے سروسامان تھے لیکن سب نے اپنی محنت شروع کی تاکہ انصار مدینہ کے اوپر بوجھ نہ بنیں اور اپنا خود کما کر کھا سکیں۔ یہ وہ مثالیں ہیں جنہیںہمیں اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے لیکن ہمارا معاشرہ اس لعنت سے پاک ہونے میں نہیں آرہا بلکہ روز بروز اس لعنت میں اضافہ ہی ہورہا ہے اور بھیک مانگنے کے نئے نئے طریقے ایجاد ہورہے ہیں۔ آپ ہاتھ میں ببل گم کے دوپیکیٹ پکڑے ہوئے بچے دیکھیں گے جو یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ وہ محنت کر کے کما رہے ہیں جب آپ کہیں گے نہیں چاہیے تو وہ فوراً دست سوال دراز کریں گے’’ اچھا اللہ کے نام پہ دے دو‘‘ ۔ ادھر سے آپ دے کر یا بغیر دیے جان چھڑائیں گے تو آگے اسی کی ماں چند ایک جھاڑن پکڑے کھڑی ہوگی اآپ کہیں گے بھئی پچھلی بار بھی لیا تھا مزید نہیں چاہیے تو وہ فوراً اپنی اصل پر آجائے گی اماں کو آٹے کے پیسے دے دو اب حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ اماں زیادہ سے زیادہ پینتیس چالیس سال کے درمیان ہوگی میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بالکل ’’ ورکینگ ایج‘‘ یعنی کام کرنے کی عمر میں ہوگی لیکن یہ اور بات ہے کہ کام کرنے پر تیار نہیں ہوگی کیونکہ سچ یہ ہے کہ وہ اس سے بہت زیادہ کما لیتی ہے جو کام کر کے کمایا جاسکتا ہے۔ بھیک مانگنے اور بلیک میلینگ کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ تین چار دینی کتابیں، منزل، پنچ سورے اور سورہء یٰسین شریف آپ کی سامنے کر دیے جاتے ہیں بہت دفعہ خوف خدا آتا ہے اور آپ خرید بھی لیتے ہیں لیکن آخر کتنا تو کل تین چار کتابوں یا تین چار تسبیح پکڑے ہوئے یہ بھکاری آپ کو خوف خدا دلائیں گے پھر بھی آپ معذرت کریں گے تو فوراً مانگنے پر بات آجاتی ہے اور اگر آپ نہ دیں تو کئی دفعہ بددعا بھی سننے کو ملتی ہے۔ ایک طریقہ خوب صاف ستھرے کپڑے پہن کر کسی سفر پر جانے کے لیے بھی بھیک مانگی جاتی ہے یعنی گھر سے آئے تھے جیب کٹ گئی اور اب گھر جانے کا جو کسی دوسرے شہر میں ہے کے لیے کرایہ چاہیے یہ بہت پرانا طریقہ واردات ہے۔ ماں کی بیماری یا باپ کا نشئی ہونا یا بیمار ہونا ایک اور طریقہ ہے جسے پورا پورا خاندان استعمال کرتا ہے۔ ایک اور پرانا اور بہت زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ کہ ہر چوک پر بچے وائیپر اور پانی کی بوتل ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوتے ہیں آپ اشارے پر دس سیکنڈ کے لیے بھی رکیں تو یہ آپ کی صاف ستھری سروس شدہ گاڑی کے ونڈ سکرین پربغیر آپ سے پوچھے اور آپ کے منع کرنے کے باوجود پانی ڈال کر پھر اُسے صاف کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر زبردستی آپ سے پیسے وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معذوربن کر بھیک مانگنا تو خیر ایک پرانا طریقہ ہے یہ اور بات ہے کہ ان میں بہت سارے بالکل تندرست ہوتے ہیں۔ ایک بہت ہی خطرناک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورتیں نوزائیدہ بچوں کو سامنے لٹا کر بھیک مانگتی ہیں یہ بچے ہمیشہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ انہیں نشہ دے کر ہی پورے دن کے لیے سلایا جاتا ہے۔ یہ تو چند ایک طریقے ہیں ورنہ یہ پیشہ وربھکاری بے شمار دوسرے طریقے بھی آزماتے ہیں اور آئے دن لکھ پتی فقیروں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان بھکاریوں کی بڑھتی تعداد یقینا تشویشناک ہے اور اس کا حکومتی سطح پر ضرور نوٹس لینا چاہیے ضرور تمندوں اور پیشہ وروں کی تفریق بھی ہونی چاہیے۔ حکومت کو ان کے لیے کچھ ادارے بنانے چاہیئں جہاں ان کو کوئی ہنر سکھایا جائے یا انہیں روز گار فراہم کیا جائے اگرچہ اب بھی کچھ ادارے ہیں لیکن ان کو فعال کرنا چاہیے تاکہ صرف تنخوا ہیں نہ لی جائیں اور کچھ کام کیا جائے مزید برآں ان اداروںکے طریقہء کار کو بھی موئثر بنانے کی ضرورت ہے ورنہ بھیک مانگنے کی یہ لعنت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جائے گی۔ بھکاری بچوں اور بچیوں کے لیے باقاعدہ سکول بنانے چاہیئں جہاں انہیں نہ صرف مفت تعلیم د ی جائے بلکہ انہیں کوئی ہنر سکھایا جائے۔ ہم چائلڈ لیبر پر تو اعتراض اٹھاتے ہیں اور ہمارے این جی اوز اور سوشل ورکرز اس کا ذکر کر کے اپنے ادارے چلاتے رہتے ہیں لیکن ان بھکاری بچوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا جبکہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ چائلڈ لیبر سے زیادہ قبیح فعل ہے اور اس کا تدارک اس سے زیادہ توجہ کا طالب ہے کہ قوم جو پہلے ہی محنت پر آمادہ نہیں ہوتی اُس میں اس طبقے کا بڑھ جانا انتہا ئی اہم پہلو ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر آپ ایک بار کسی ہٹے کٹے بھکاری سے کہہ کر دیکھیں کہ آئو میرے پاس نوکری ہے نوکری کر لو اس نے آپ کو یا تو کوئی کرارا سا جواب دینا ہے کہ خیرا ت دینا ہے تو دو مشورے مت دو یا کوئی عذر پیش کرنا ہے اور یہی حکومت کا کام ہے کہ انہیں ہر صورت کچھ اداروں میں رکھ کر ایک تو عزت نفس سکھانی ہے اور دوسرے کوئی ہنر اور ان کے مخصوص ٹھکانوں یعنی مصروف چوکوں سے انہیں ہٹا نا ہے تا کہ ان کے یہ گڑھ ختم ہوں اوران کو کسی نہ کسی طرح محنت کی عظمت کا قائل کرنا ہے تاکہ ہم معاشرے کے اس ناسور سے چھٹکارا پا سکیں اور اس کے لیے حکومت کی منصوبہ بندی اور پھر اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے سنجیدگی اور خلوص پہلی شرط ہے۔
بھیک اور بھکاری معاشرے کا ناسور
Sep 10, 2020