لاہور (فاخر ملک) صوبہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشنوں کا انعقاد 2022 میں ہو سکے گا اس کی وجہ انتخابی حلقہ بندیاں اور طریقہ کار کی گائیڈ لائن کا نہ ہونا ہے اور یہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے اگر پنجاب اسمبلی حکومتی اتحادیوں کے مابین طے پائے جانے والے ترمیم شدہ نئے بلدیاتی نظام کی منظوری رواں مہینہ کے دوران دیدی جائے۔ تاہم اس امر کے امکانات بہت کم ہیں۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق حکمران جماعت اور مسلم لیگ ق کے مابین صوبہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے بنیادی نکات پر اتفاق رائے کے بعد اس کا ڈرافٹ منظوری کے لیے وزیراعظم عمران خان کو بھیجا جائے گا جبکہ حکمران جماعت قانون سازی سے متعلقہ شخصیات کے مشوروں کے بعد اسے حتمی شکل دے گی۔ ڈرافٹ کی فائنل شکل سامنے آنے کے بعد اسے دوبارہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کو پیش کیا جائے گا اور ڈرافٹ پر حتمی فیصلہ ہونے کے بعد مسودہ قانون پنجاب اسمبلی میں نئی ترامیم کے ساتھ منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرانے کیلئے گرین لائیٹ کا پتہ اس وقت چلے گا جب پنجاب حکومت بلدیاتی الیکشن کے لئے نئے ایکٹ کی منظوری دے گی اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اس پر کام شرو ع ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کا کام حلقہ بندیوں کو مکمل کرنا ہے جبکہ حلقہ بندیوں کے نوٹیفکیشن، اس پر اعتراضات اور انہیں حتمی شکل دینے کیلئے پانچ سے چھ مہینے کا عرصہ درکار ہوگا۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق بلدیاتی الیکشن کے لئے جس فارمولا پر اتفاق ہوا ہے اس کے تحت ق (لیگ) کی تجویز کو مان کر اس میں ضلع کونسلوں کو شامل کر دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں دس اضلاع میں 10 میونسپل کارپوریشنیں اور -26 اضلاع میں ضلع کونسلیں اور اس کے نیچے تحصیل کونسلیں بنیں گی۔ ان تمام اداروں کے میئر اور ڈپٹی میئر اور چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کابراہِ راست چناؤ جماعتی بنیادوں پر ہو گا۔ اس ضمن میں مسلم لیگ ن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ بلدیاتی ایکٹ کے سامنے آنے کے بعد ہی اس بارے میں کوئی تاثر قائم کیا جا سکتا ہے۔