کہتے ہیںکہ مشین کے صرف اسی پرزے کو تبدیل کیا جاتا ہے جو اسکی روانی میں رکاوٹ کاباعث بنتا ہو۔ اور جب رکاوٹ کاباعث بننے والے پرزے تبدیل کر دیئے جائیں تو کوئی بھی مشین باآسانی کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ رہا پاکستان کامعاملہ تو یہ مثال 100فیصد الٹ ہے، پاکستان کی مشینری کے تمام پرزے قیام پاکستان کے ساتھ ہی مرحلہ وار خراب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا اورہر آنے والے دور میںخراب پرزوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔گزشتہ تین دہائیوں سے صورتحال یہ ہے کہ اس مشینری کے سارے کے سارے پرزے ہی خراب ہیں۔اسکے باوجود مشین چل تو رہی ہے مگر نتائج اُلٹ دے رہی ہے۔نہ تو کارکردگی بہتر ہے نہ سپیڈ اورنہ ہی پروڈکشن کا معیار ، لہٰذاہمارے سیاسی قائدین اور بااثر محکموں نے خراب پرزے تبدیل کرنے کی بجائے اس کا آسان حل یہ نکالا کہ سسٹم میں جو ایک آدھ پرزہ ٹھیک ہے اسی کو نکال دو اور سب کو ایک جیسا کر دو پھر مشینری چلے یا نہ چلے بس پرزوں کو ایندھن ملتا رہنا چاہئے اور مل بھی رہا ہے۔ پنجاب کی تباہ حال انتظامی مشینری میں اچانک دو اہم ترین عہدوں پر دوایسے پرزے فٹ کئے گئے ہیں جو اس مشینری کیلئے کسی طور بھی پر قابل قبول نہیں ہونگے۔ اب یا تو انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری پنجاب اس سرکاری مشینری سے تین ماہ کے اندر اندر آؤٹ ہو جائینگے اور اگر ایسا نہ ہوا تو انکے ٹریک ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے پورے تیقن سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کی یہ مشینری کو کسی نہ کسی حد تک اوور ہال کر کے چالو حالت میں لے آئینگے اور اللہ کرے ایسا ہو۔
ان دونوں تقرریوں سے یہ بات تو واضح ہے کہ ان میں پنجاب کی مرضی شامل نہیں۔ کامران علی افضل جنہیں چیف سیکرٹری بنا کر پنجاب میں تعینات کیا گیا ہے ساہیوال میں ایڈیشنل کمشنر اور فنانس ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ انھیں ایماندار ہونے کے باعث کوئی اچھی پوسٹ ملی ہی نہیں۔ کیونکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی کیلئے پنجاب میں جو ’’میرٹ‘‘ گزشتہ 30 سال سے چل رہا ہے بدقسمتی سے موجودہ حکومت کے تین سال میں بھی تبدیل نہ ہوسکا ۔ شہباز شریف جب وزیراعلی پنجاب بنے تو کسی پر کشش آسامی کیلئے کوشش کرنے کی بجائے وفاق میں ٹرانسفر کی درخواست دیکر موجودہ چیف سیکرٹری مرکز میں جا بیٹھے۔ کیونکہ ایسا پرزہ نہ تو شہبار شریف کی مشینری میں چل سکتا تھا اور نہ ہی شہباز شریف کی باقیات کے زیرانتظام چلنے والے نظام میں انکی گنجائش تھی۔ لہٰذا ان دونوں تبدیلیوںکے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی ۔
آئی جی پنجاب راؤ سردار علی کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے پنجاب پولیس کے سربراہان اور صوبے بھر کے انتظامی و پولیس افسران کی پے در پے تبدیلی کے حوالے سے پنجاب حکومت نے مہاتما گاندھی کے دھوتیوں والے معروف لطیفے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ گاندھی نے کہا تھا میںدن میں اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ پنجاب میں 3سال کے عرصے میں کلیم امام کی جگہ محمد طاہر نے ،پھر انکی جگہ امجد جاوید سلیمی نے پولیس کی کمان سنبھالی۔ انھوں نے ابھی سسٹم سیدھا کرنا ہی شروع کیا تھا کہ انھیں ہٹا کر عارف نواز کو آئی جی پنجاب لگا دیا گیا۔ پھر شعیب دستگیر اور آخرکار انعام غنی بھی نہ چل سکے۔ اب راؤ سردار علی ساتویں آئی جی ہیں جن کی تعیناتی پر چیف سیکرٹری کی طرح کم از کم موجودہ پنجاب انتظامیہ مطمئن نہیں ہوگی ۔ جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کے ایک باوقار گھرانے سے تعلق رکھنے والے را ؤ سردار علی بہت کم عرصہ پولیس کے میانوالی اور چکوال میں ضلعی سربراہ رہے۔یہ وہی راؤ سردار ہیں جنھوں نے پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ’’معاونت ‘‘سے انکار کردیا تھا اور کھڈے لائن لگا دئیے گئے۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی کام کرتے نہیں، قانونی کام روکتے نہیں۔ چہروں کی بجائے فائل پڑھتے ہیں ۔ ان کے قریبی ذرائع بھی ان کو ایماندار اور صاف گو قرار دیتے ہیں اسی لئے انہوں نے بھی ملازمت کا زیادہ عرصہ مین سٹریم کی بجائے غیر اہم عہدوں پر گزار دیا۔ بہت کم عرصہ آر پی او بہاول پور رہے۔ اور سفارش نہ ماننے پر تبدیل کر دئیے گئے۔
گزشتہ چند ماہ سے پنجاب میں یہ کلچر تھا کہ چار رکن اسمبلی مل کر لاہور پہنچتے او راپنے ضلع کے انتظامی و پولیس افسران تبدیل کروا لیتے۔ رہا معاملہ ایس ایچ او اور نچلے درجے کے اہلکاروں کی ٹرانسفر کا اس کیلئے تو بعض اوقات اراکین اسمبلی کے لیٹر پیڈز پر غیر قانونی سفارش ہی کافی ہوتی تھی۔مظفر گڑھ کے ایک سابق ڈی پی او کے کمرے میں ایک رکن اسمبلی داخل ہوتے ہیں۔ کانسٹیبل سے لے کر اے ایس آئی تک 23 ناموں پر مشتمل ایک فہرست ڈی پی او کے حوالے کرتے ہیں اور ڈی پی او متعلقہ برانچ کے انچارج کو بلا کر مذکورہ رکن اسمبلی کا لیٹر پیڈ تھماتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ من و عن عمل کردو۔ اب شاید ان دونوں افسران کی موجودگی میں ایسا نہ ہوسکے۔ میرٹ پر سختی سے عملدرآمد کی کوشش وفاق سے آنیوالے ان دونوں کو واپس وفاق میں ہی لیجائے گی اور یہی غالب امکان ہے کیونکہ تباہ و برباد ہوچکی مشینری میں ایک دو نئے اور صاف ستھرے پُرزے فٹ نہیں ہو سکیں گے۔ ایک رکاوٹ یہ بھی نظر آتی ہے کہ آئی پنجاب کا چارج لینے والے راؤ سردار علی سے جونیئر پولیس افسر ان کے ماتحت کام کرینگے اور ان افسران کی اکثریت ایسی ہے جن کی پنجاب میں جڑیں بہت مضبوط ہیںتو وہ کسی جونیئر کو کیسے جڑ پکڑنے دینگے۔
پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی کے عہدوں کیلئے حکومت پنجاب کے جو ہارٹ فیورٹ تھے وہ تو پتلون کی آڑ میں لنگوٹی سے بھی گئے۔ پنجاب کے آخری ضلع راجن پو ر کے آخری تھانے شاہ والی سے لیکر رحیم یار خان کے آخری تھانے کوٹ سبذل ، لاہور کے آخری تھانے باٹا پور اور اٹک کی حدود تک پولیس کی نگرانی میں چلنے والے سینکڑوں نجی ٹارچر سیل کیا قواعد و ضوابط کے امین موجودہ آئی جی ختم کروا سکیں گے؟ کیا پنجاب بھر کے تمام اضلاع اور تحصیلوں کی رجسٹری برانچوں کا قبلہ درست ہوجائے گا؟ فی الحال تو کسی طوریہ ممکن نظر نہیں آتا۔ میں جس وقت یہ سطور لکھ رہا تھا مجھے ایک رپورٹر کی طرف سے ویڈیو بھجوائی گئی جو کہ سی آئی اے ملتان کے ایک نجی ٹارچر سیل کی تھی جس میں ایک نوجوان پر تھرڈ ڈگری تشدد کیا جارہا ہے۔ آ ئی جی پنجاب راؤ سردار کا پہلا دن اور پہلے تھرڈ ڈگری تشدد کی سلامی۔ اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟