نو تشکیل شدہ افغان عبوری حکومت پر امریکی تحفظات قطعی غلط اور بلا جواز ہیں ۔ طویل خانہ جنگی کے نتائج کھلی کتاب مانند سامنے ہیں ۔ کھربوں ڈالرز کے اخراجات ضائع ہوگئے، اُلٹا جاتے ہوئے اربوں ڈالرز مالیت کا بھاری اور جدید جنگی سازو سامان بھی چھوڑ گئے ۔اتنی عجلت میں افغانستان کیوں چھوڑا ؟ایسا کیوں ہوا ؟ اگر جنگی پالیسی کامیاب تھی اور فوجی مداخلت ثمر آور تھی تو اتنی عجلت میں انخلا کیوں؟ اور اب پھر سے دوبارہ آنے کی دھمکیاں ۔ خواتین کے حقوق و احترام کی بارہا یقین دہانیوں کے بعد کابینہ میں خاتون وزیر نہ ہونے پر تشویش غیر ضروری ہے۔ نئی حکومت کے بیانات کی روشنی میں امید رکھنی چاہیے کہ معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور حالات معمول پر آنے کے بعد خواتین نمائندگی نہ ہونے کا شکوہ بھی دور کر دیا جائیگا ۔ فی الوقت دنیا کو امن چاہیے۔ کورونا جیسی موذی بیماری کے بوجھ تلے دبی دنیا کے معاشی حالات بہتر بنانے پر توجہ مرتکز کریں ۔ فضول جنگوں کا انجام ہم سے زیادہ ’عالمی پاور بروکرز‘ کے علم میں ہے۔ اب مداخلت در مداخلت کا باب بند کر دیں۔ ہر خطہ کی آبادی کے مسائل پر وہاں کی حکومتوں کو آزادی سے معروضی حقائق کے مطابق کام کرنے دیں ۔ زمین کو بارود سے راکھ بنانے کی روش ترک کرنا پڑیگی۔ اب ’انسانی پیٹ‘ کو بھرنے کی تدابیر سوچیں ۔ شافی اور کارآمد تدابیر ۔ نمائندہ حکومت کے اعلان پر سب کو مطمئن اور خوش ہونا چاہیے ۔ دھمکیاں مت دیں، تسلیم کریں ۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ وسائل کا رخ مکمل طور پر انسانی فلاح اور امن کے قیام کی طرف موڑ دیں۔
پاکستان کیوں نہ خوش ہو، ہم تو دہائیوں سے افغان جنگ کے بد اثرات سمیٹ رہے ہیں۔ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں سکون ۔ اب ہمارا کیا قصور ہماری ’چائے‘ ہے ہی اتنی مزیدار کہ دشمن بھی رام ہو کر سچ بول دے ۔ پہلا کپ وہ تھا جو خود سے گھسنے والوں نے پیا اور سچ اگل دیا۔ ہماری مہمان نوازی اور نرم دلی کی داد دینے کی بجائے تب بھی طوفان اٹھایا، اب پھر سے واویلا مچا دیا ۔ دوسرا کپ بے حد تاریخی اور اہم ہے کہ میزبان ملک نے دعوت دے کر پلایا ۔ کتنا بڑا فرق ہے خود سے گھسنے اور باعزت دعوت پر جانے میں ۔ کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کیلئے آواز بلند کرنے کا حق حاصل رکھنے کا افغان حکومت کے بیان سے سرحد کے اس طرف ہا ہا کار تو مچنی تھی۔ اب پھر سے افغان حکومت نے پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنے کے بیان کا اعادہ کیا ہے۔ بہرحال ہمیں چند ظاہری امور پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے، اس طرف چھائی مکمل خاموشی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔امن اور استحکام صرف ہماری خواہش نہیں، پوری دنیا کی ضرورت ہے اور اسکے قیام میں ہمارے کردار کو کوئی بھی نظر انداز کرکے کامیاب نہیں ہوسکتا چار دہائیوںسے زائد عرصہ پر محیط40 لاکھ سے زائد افغانیوں کی میزبانی اور مداخلت کار قوتوں کا محفوظ انخلا، پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں تھا، نہ ہے ۔ اس تمام عرصہ کے درمیان جو جو نقصانات ہوئے وہ لکھنے کیلئے کتابیں کم پڑ جائیں اس لیے دور اندیشی اور ٹھنڈے دل سے کام لیں اور منجمد افغان اثاثوں کو ریلیز کر دیں تاکہ ملکی انتظام سنبھالنے میں آسانی آئے ۔
٭٭٭
نیک روح جابر ترین کی قید میں ہی رحمت الہٰی کی پناہ میں چلی گئی ۔ قید دشمن کی ہو یا جبر کی ، ایک ساعت رہنا بھی محال ہے کجا 12 سال ۔ اتنا طویل عرصہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں، وہ بھی لمحۂ موجود کے سفاک ترین قاتلوں کی قید میں۔ قابض گروہ نے رات کے اندھیرے میں پیکر حریت سید علی گیلانی کو دفنا دیا۔ دشمن اتنا خوفزدہ کہ کرفیو ، خاردار تاریں، سخت ترین محاصرے ، انٹرنیٹ کی بندش، گھر کا گھیراؤ ہونے کے باوجود عقیدت مند پہنچتے رہے ۔ بلاشبہ عزت اللہ تعالیٰ کریم عطا فرماتا ہے۔ پورے پاکستان میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
ایک جنازہ پر پابندی عائد کرنے والے اللہ رحمن کی طرف سے دی گئی عزت روکنے کی تاب نہیں رکھتے تھے ۔ سینکڑوں جگہوں پر 3کشمیری نسلوں کے سامنے ظلم و تشدد کے آگے چٹان مثل سربکف زندہ مجاہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ صبر و استقامت سے لبریز طویل جدوجہد کا باب پاک پرچم میں لپیٹ کر لحد کے حوالے کر دیا گیا۔اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم و کریم انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔آمین
کشمیر کاز پر عوام، حکومت اور فوج باہم متفق و متحد کھڑے ہیں۔ کچھ برس سے مسلسل بذریعہ کالمز اور ذاتی طور پر ذمہ دار اداروں کو تجویز دیتی رہی کہ جب کشمیر میں بھارتی مداخلت اور ظلم کے ثبوت ہیں، پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے ناقابل تردید حقائق ہمارے پاس ہیں تو آپ پاکستان میں تعینات غیر ملکی سفیروں کو بلا کر حقائق سے آگاہ کریں۔ عالمی اداروں کے فورمز پر بھی سارے ثبوت دکھائے جائیں تاکہ بھارتی پروپیگنڈا کا توڑ ہو۔ دوسرا، عالمی دنیا بھارت کے اصل کردار اور روپ سے آگاہ ہو۔ دو سال سے ان خطوط پر کام ہو رہا ہے اور مثبت نتائج بھی نظر آرہے ہیں۔ صدی کا سب سے بڑا مذاق کہ طے شدہ عالمی فیصلہ کے مطابق کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دینے کی بجائے آئینی ترمیم کے ذریعہ مقبوضہ وادی کو اپنا صوبہ بنا کر گویا عالمی برادری کو چیلنج کر ڈالا کہ وہ کسی قانون کاپابند نہیں مگر اب منزل دور نہیں تمام تر جبر و استبداد کے باوجود کشمیری آزادی کی تڑپ لیے پُر عزم ہیں ۔ ٹینک اور سنگینوں کے محاصرے میں مقید گلیوں میں نہتے ہاتھوں سے دو بدو لڑائی لڑنے والی قوم اب فتح کے قریب ہے۔ان شاء اللہ