گزشتہ دو دنوں کے دوران طاقت و اختیار کے کلیدی مناصب کی حامل شخصیات کے یکے بعد دیگرے بیانات سے میں ایک ہی وقت میں حیران و پریشان بھی ہوا اور خوشگوار حیرت نے مجھے تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس دلاتے ہوئے سرشار بھی کیا۔ میں چونکہ آئین و قانون کی حکمرانی اور آئین کے تحت قائم سسٹم کی پاسداری و استحکام کی دل خوش کن توقعات کے ساتھ خود کو وابستہ رکھتا ہوں اس لئے مقتدر شخصیات کے گزشتہ دنوں کے بیانات پر میں کسی معصوم بچے کی طرح بیک وقت کھلکھلایا بھی اور مرجھایا بھی۔ ان میں سے پہلا بیان ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تھا جنہوں نے یوم دفاع و شہداء کی جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے دبنگ انداز اور دوٹوک الفاظ میں یہ کہہ کر مجھے تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا کہ جمہوریت میں ہی پاکستان کی مضبوطی اور بقا ہے۔ اسے مزید مستحکم کرنے کیلئے ہم سب کو آئین کی پاسداری کرنا اور انصاف‘ برداشت اور بردباری کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ میں نے چونکہ ٹی وی چینلز پر اس تقریب کی لائیو کوریج بھی دیکھی اور جنرل صاحب کی تقریر سنی تھی اس لئے اگلے روز کے اخبارات میں جنرل صاحب کے یہ الفاظ من و عن شائع ہوئے دیکھ کر عملاً میری باچھیں کھل اٹھیں اور یک گونہ طمانیت کا وہ احساس ہوا جیسے پیاسے کو دریا مل گیا ہو اور پھول کو شبنم۔
بدھ کے روز وزیراعظم عمران خان کا ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں خطاب تھا جسے سن کر میں ہکا بکا رہ گیا کہ آئینی‘ جمہوری طاقت و اختیار والے وزیراعظم ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے پر شاکی ہیں اور فرما رہے ہیں کہ قانون کی بالادستی کے بغیر خوشحالی نہیں آسکتی۔ ارے صاحب! اگر آپ کے بھرپور اقتدار کے تین سال گزرنے کے بعد بھی اور ادارہ جاتی معاونت و ہم آہنگی کی مثالی فضا استوار ہونے کے باوجود بھی ملک میں آپ کے بقول قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکی تو اس پر میرے جیسے عام آدمی نے تو تاسف کا اظہار کرنا ہی کرنا ہے۔ مگر یہ صورتحال کیا آپ کیلئے بھی لمحۂ فکریہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو ’’حیراں ہوں دل کو روئوں یا پیٹوں جگر کو میں‘‘ جیسی مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ایک جانب عسکری قیادت ملک کی مضبوطی اور بقا کیلئے جمہوریت کو جزولاینفک قرار دے رہی ہے اور جمہوریت کیلئے یہ سرٹیفکیٹ اس جانب سے آرہا ہے جہاں سے ماضی میں جمہوریت کو راندۂ درگاہ بنا کر اسکے منبع آئین کو کاغذ کے چند ایسے ٹکڑے قرار دیا جاتا رہا ہے جنہیں ہاتھوں میں مسل کر ناکارہ ٹشو پیپر کی طرح ہوا میں اچھالا اور پھینکا جا سکتا ہے۔ اور وائے ناکامی! دوسری جانب سے اپنے جمہوری اقتدار اور اس سے حاصل ہونیوالے تمام تر اختیارات کی موجودگی میں ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے تاثر و تصور کو ہی ایک تلخ حقیقت بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ محترم وزیراعظم نے اسی تناظر میں ایک سابق جرنیلی آمر کو یہ کہہ کر رگڑا لگانا بھی ضروری سمجھا کہ مشرف نے این آر او دیکر آئین توڑنے سے بڑا جرم کیا۔
ارے اب تو خود عسکری سربراہ آئین کے تحفظ اور جمہوریت کے استحکام کی ضمانت فراہم کر رہے ہیں اور تمام متعلقین کو آئین کی پاسداری کا درس دے رہے ہیں تو یہ تو اسی جمہوری نظام کے استحکام کی ضمانت ہے جس میں سے آپ کا اقتدار کشید ہوا ہے۔ اس ضمانت کو آپ قانون کی حکمرانی سے متعلق اپنے خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے کیوں نہیں بروئے کار لاتے۔ ہمارے سپہ سالار نے یقیناً آئین کی دفعہ 243 کی پہلی دونوں شقوں‘ آئین کی دفعہ 245 میں موجود مسلح افواج کی ذمہ داریوں اور آئین کی دفعہ 244 کے تحت آئین کے تھرڈ شیڈول میں شامل مسلح افواج کے حلف کی عبارت کو پیش نظر رکھ کر ہی آئین کی پاسداری کرنا سب کیلئے لازم قرار دیا ہوگا اور جمہوریت کو پاکستان کی مضبوطی اور بقا کی ضمانت بنایا ہوگا۔ آئین و جمہوریت کیلئے ایسی مثالی سازگار فضا سابقہ جمہوریتوں کو تو کبھی میسر نہ ہو پائی تھی مگر اب تو ہمارے سپہ سالار نے اپنی خوش کلامی کے ذریعے جمہوریت کے تحفظ کیلئے حفاظتی باڑ بھی لگا دی ہے مگر جمہوریت کے ساتھ وابستہ اہل اقتدار آج بھی جمہوریت کی عملداری اور قانون کی حکمرانی کے معاملہ میں شکوک و شبہات میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ تو پھر…ع
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
آپ جمہوریت کے جس تناور درخت پر بیٹھے اس کا میٹھا پھل کھا رہے ہیں‘ اسکی مٹھاس کی تاثیر کڑوی ہونے کا کیوں تاثر دے رہے ہیں۔ ماورائے آئین اقدامات سے ماضی کے ڈسے ہوئے حکمران تو جمہوریت کی بحالی کی طویل اور کٹھن جدوجہد میں قید‘ کوڑے‘ پھانسی جیسی سزائوں کو اپنا زیور بنا کر جمہوریت ہی کے گن گاتے اور اس کیلئے فکرمندی میں ڈوب کر آج بھی اسی کا دامن تھامے نظر آتے ہیں کیونکہ جمہوریت کی حکمرانی درحقیقت آئین و قانون کی بالادستی و حکمرانی ہوتی ہے۔ اگر ملک میں حقیقی معنوں میں سلطانی ٔجمہور رائج ہو تو اس سے سرکشی اختیار کرنے کی کسی کو جرأت ہو سکتی ہے نہ قانون کی بالادستی میں ریاست کے اندر ریاست کا کوئی تصور پنپ سکتا ہے۔ اور سلطانیٔ جمہور کو آئین و قانون کی حکمرانی کے قالب میں ڈھالنے اور اسکے ثمرات حقیقی معنوں میں جمہور (عوام الناس) تک پہنچانے کی فضا بھی آج ہی استوار ہوئی ہے کیونکہ اسکی حفاظت کیلئے باڑ بنے ریاستی ادارے جمہوریت کے استحکام میں ہی اپنی بقا سمجھ رہے ہیں۔ اگر مسلح افواج سمیت تمام ریاستی ادارے آئین میں متعینہ اپنی حدود وقیود میں رہ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے عہد پر عمل پیرا ہیں تو جناب! آئین و قانون کی حکمرانی کے معاملہ میں آپ کے دل میں مایوسی پیدا ہونا چہ معنی دارد؟ آپ کو آئین و قانون کے تقاضے کے مطابق ذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملہ میں کہیں پر ابہام نظر آرہا ہے تو اسی آئین نے آپ کو متعلقین سے جواب دہی کا مجاز بنایا ہے۔ آپ آئین کی دفعہ 243 کی دونوں شقوں کو اپنے مضبوط ہاتھ گردانیں اور آئین و قانون کی حکمرانی کے عہد کو عملی قالب میں ڈھالنے کے اقدامات اٹھانا شروع کر دیں۔ پھر قانون کی بالادستی میں رکاوٹ بننے کی بھلا کس کو جرأت ہو پائے گی۔ مگر آپ کے عہد میں حکومتی گورننس کمزور ہونے کا ہی پیغام ملتا رہے گا تو جناب! حکومتی گورننس کو رگیدنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہ جانے دینے والے بے شمار مافیاز تو آپ کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔