پاکستان جغرافیائی طور پر ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں اس کے ایک طرف چین جیسا ہمسایہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک بڑی عالمی قوت بن کر ابھرا ہے اور امریکا سمیت دیگر کئی بڑے اور اہم ممالک کو چین کی ترقی اور استحکام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ دوسری جانب ایران جیسا ملک ہے جو مغرب کو کئی وجوہ کی بنا پر کھٹکتا ہے۔ تیسری طرف افغانستان جیسا پڑوسی ہے جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے میں سیاسی استحکام جڑ نہیں پکڑ سکا اور جنگی ماحول معاملات کو مسلسل بگاڑ کا شکار کیے رکھتا ہے۔ چوتھی جانب بھارت جیسی ریاست ہے جو توسیع پسندانہ عزائم رکھتی ہے اور خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے ہر وہ اقدام کررہی ہے جس کی وجہ سے پورے خطے کا امن و امان خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اپنے چار طرف موجود اس ماحول کے باعث پاکستان کو کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنی دفاعی و تزویراتی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر مسلسل توجہ دینی پڑتی ہے۔
ملک کی تمام مسلح افواج کی دفاعی و تزویراتی صلاحیتوں کی بہتری کے تقاضوں سے انتظامیہ کے سربراہ یعنی وزیراعظم کی واقفیت اور ان صلاحیتوں اور تقاضوں کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کرنے کے لیے سنہ 2000ء میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کا ادارہ قائم کیا گیا جس میں وزیراعظم کے ساتھ وزرائے خارجہ، داخلہ، خزانہ، دفاع اور دفاعی پیداوار شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، سٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرلز اس اتھارٹی کے ارکان ہوتے ہیں۔ این سی اے جوہری پروگرام اور تزویراتی نوعیت کے فیصلوں کے لیے ملک کی سب سے بڑی انجمن ہے جس کے اب تک پچیس اجلاس ہوچکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں اتھارٹی کے دو اجلاس ہوئے جن میں سے پہلا اجلاس 27 فروری 2019ء کو اس وقت ہوا جب بھارت نے خطے کے امن و امان کو بگاڑنے کے لیے پاکستان میں در اندازی کی۔ اس در اندازی پر پاک فضائیہ نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور ان میں ایک طیارے کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھامن کو گرفتار کرلیا جسے بعد میں رہا کردیا گیا۔
بدھ کے روز این سی اے کا موجودہ حکومت کے دور میں دوسرا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی سرابرہی میں ایس پی ڈی کے ہیڈکوارٹرز میں منعقدا ہوا۔ اجلاس میں پاکستان کے تزویراتی اثاثوں کی حفاظت پر مکمل اظہار اعتماد کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا گیاہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست کے طور پر جوہری سلامتی اور جوہری عدم پھیلائو کے اقدامات بہتر بنانے کی عالمی کوششوں میں کردار ادا کرتا رہے گا۔ اجلاس میں روایتی اور تزویرانی میدانوں میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے عدم استحکام پر تشویش کا اظہار بھی کیاگیا۔ اجلاس کے شرکا نے ان پیش رفتوں کو امن اور سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہوئے بغیر خطے میں تزویراتی استحکام کو یقینی بنانے کے تمام اقدامات کرے گا۔ اتھارٹی نے قابل اعتماد کم سے کم ڈیٹرنس کی پالیسی کے مطابق فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس کو برقرار رکھنے کا اعادہ کیا اور تزویراتی صلاحیتوں کی ترقی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اجلاس کے شرکا نے تربیت کے اعلی معیار اور اسٹریٹجک فورسز کی آپریشنل تیاریوں، سائنسدانوں اور انجینئروں کی تعریف کی جن کی کوششوں سے پاکستان مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوا ہے۔
این سی اے کا حالیہ اجلاس بھی بھارت کے ان اقدامات کے تناظر میں ہوا جن سے صاف طور پر یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی خواہش رکھتا ہے۔ بھارت کی طرف سے ماضی میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پہلے حملہ نہ کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جب بھی جنگی ماحول پیدا ہوا اس میں اکثر بھارت نے ہی پہل کی یا اس کی جانب سے ایسی صورتحال پیدا کردی گئی کہ معاملات کا ایک خاص رخ اختیار کر جانا ناگزیر ہوگیا۔ بھارت کی حالیہ تکنیکی پیش رفتوں سے یہی اشارے مل رہے ہیں کہ وہ خطے کا ماحول خراب کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان پہلے ہی بین الاقوامی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کراتا رہا ہے کہ بھارت مسلسل ایسے اقدامات کررہا ہے جو خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان کے ان تحفظات کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ بھارت اس وقت دنیا میں اسلحے کا دوسرا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ بحرِ ہند میں جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارتی آبدوز بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت خطے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لیے کس حد تک بگاڑ پیدا کررہا ہے اور اس کے ان اقدامات کی وجہ سے پوری دنیا کے لیے کتنے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی مسلح افواج اور اس کے تزیرواتی و جوہری اثاثوں کی حفاظت اور نگرانی کے لیے موجود فورسز بھارت کے کسی بھی ملٹری ایڈونچر کو مس ایڈونچر میں بدلنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور اس کا واضح ثبوت ماضی میں دیا جاچکا ہے لیکن پاکستان خطے اور دنیا کے امن و امان کو اہمیت اور ترجیح دیتا ہے اس لیے اس کی جانب سے ایسے کسی بھی معاملے میں پہل نہیں کی جاتی۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے بھارت کے ایسے تمام اقدامات سے واقف ہیں جو خطے اور پوری دنیا کے لیے مسائل کا باعث بن رہے ہیں لیکن اس کے باوجود محض اس بنیاد پر اس کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جاتی کہ وہ مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سامان خریدنے والا ایک بڑا گاہک ہے۔ بین الاقوامی برادری سرمایہ داریت کے تحفظ کے لیے پوری دنیا کا امن و سلامتی داؤ پر لگا رہی ہے اور یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ بھارت ایک ایسے جنگی جنون میں مبتلا ہے جس کا علاج صرف اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب پوری بین الاقوامی برادری یک زبان ہو کر اسے یہ احساس دلائے کہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے کیے جانے والے اس کے اقدامات پوری دنیا کے لیے کسی بہت بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں، لہٰذا یہ سب کچھ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔