اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کا کیس وزیرا عظم کی جانب سے اقدامات کرنے کی یقین دہانی پر دوماہ کے لیے ملتوی کردیا ہے۔ مقدمے کی سماعت صبح ساڑھے نوبجے ہوئی تو وزیر اعظم کی پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ سماعت کے آغاز سے قبل عدالتی عملے نے بتایا کہ چیف جسٹس کی عدالت میں آج صرف لاپتا افراد کیس کی سماعت ہوگی اور دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی ہے۔ لاپتا صحافی مدثر نارو کا کم سن بیٹا بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا جہاں شہباز شریف نے ان سے ملاقات کی۔ دریں اثنا آمنہ مسعود جنجوعہ بھی عدالت پہنچیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کا آغاز کیا تو وزیر اعظم شہباز شریف، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس ملک کے منتخب نمائندے اور چیف ایگزیکٹو ہیں، اس عدالت نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ یہ بہت بڑا ایشو ہے، ریاست کا وہ رسپانس نہیں آرہا جو آنا چاہیے تھا۔ ایک چیف ایگزیکٹو نے اس ملک میں 9 سال حکمرانی کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں فخریہ لکھا کہ اپنے لوگوں کو بیرون ملک فروخت کیا، یہ عدالت تفتیشی ایجنسی نہیں ہے، بہت دفعہ عدالت نے یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجا، کابینہ نے کوئی ایسا رسپانس نہیں دیا جو آنا چاہیے تھا۔ آپ نے ایک کمیٹی بنائی، یہ آئینی عدالت ہے، یہ معاملہ صرف کمیٹی کا نہیں، لاپتا افراد کے لیے کمیشن بنا، لاپتا افراد کی فیملی بیٹھی ہیں انہوں نے کمیشن کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں، ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری ہونی چاہئیں، لوگ بازیاب ہوئے لیکن کبھی کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی، اس سے بڑا ایشو کوئی بھی نہیں۔ ’ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں۔ عدالت میں بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آرہے ہیں، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں، یہ تاثر ہماری قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتا کرنا ٹارچر کی سب سے بڑی قسم ہے، عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ صرف ایگزیکٹو سے پوچھے، آپ سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں، اس ملک کی قومی سلامتی آپ وزیر اعظم ہیں آپ کے ہاتھ میں ہے، اس عدالت کا آپ پر اعتماد ہے، آپ اس کا حل بتا دیں، ایک چھوٹا بچہ ادھر آتا ہے اس کو یہ عدالت کیا جواب دے، اس وقت کے وزیر اعظم سے بھی بچے کی ملاقات ہوئی، یہ عدالت جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے۔ اس پر وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جواب دیا کہ یہ سب میری ڈیوٹی ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ حکمرانی کے بہت مسائل ہیں اور وہ تب ہی ختم ہوں گے جب آئین بحال ہوگا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ مجھے جب آپ کا حکم ملا تو میں عدالت کے سامنے پیش ہوگیا، آپ نے بہت اہم آبزرویشنز دی ہیں، میں کوئی عذر پیش نہیں کروں گا، بچے نے کہا وزیر اعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں، یہ جملہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، میں یقین دلاتا ہوں میں پوری کوشش کروں گا، میں اس ملک کی عدالتوں کو جوابدہ ہوں، مجھے جاکر اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے، میں یہاں الزام تراشی والی گیم کھیلنے نہیں آیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کے 6 اجلاس ہو چکے ہیں، میں اپنے عوام کو بھی جوابدہ ہوں، ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے رکھوں گا، حقائق خود بولتے ہیں، میں بہت سادہ آدمی ہوں، اللہ مجھے معاف کرے۔ لاپتا افراد کمیٹی 6 اجلاس کرچکی، لاپتا افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا اور عدالت میں رپورٹ پیش کروں گا، رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہوگی، بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔ 4 سالوں میں 2 مرتبہ جیل گیا، میرے اہلخانہ نے بھی اذیت دیکھی، میں نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے، ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ’آپ آئین کا آرٹیکل 7 پڑھیں، اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 7 پڑھ کر سنایا، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب بتائیں لاپتا افراد کا ذمہ دار کون ہے، اسلام آباد سے دو بھائی غائب ہوئے آج تک ان کا پتا نہیں چلا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ لاپتا افراد کیسز میں آپ کو ہمارا رویہ نظر آئے گا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کمیٹیاں بنتی رہیں، یقین دہانی کرائی جاتی رہی لیکن کوئی کام نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہتا سارے لاپتا افراد بازیاب ہوں گے لیکن کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کا میں اور میرا بھائی بھی نشانہ بنا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی تھی، آئین کے مطابق کوئی بھی شہری لاپتا ہو تو ریاست ذمہ دار ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے جواب دیا کہ اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا، یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے، آپ کو اس لیے بلایا کہ ریاست سمجھ سکے کتنا بڑا ایشو ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھا تو ہر زبان والے طلبہ کو پنجاب میں داخلے دیے، بلوچ، پشتون، سندھی پنجابی سب طلبہ کو دانش سکولز میں مفت داخلے دلوائے، بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی سارے پاکستانی ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے، تمام صوبوں کے چیف ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہیں اگر ان کے علاقے سے کوئی اٹھایا جاتا ہے، اس عدالت کے فیصلے سے پہلے ایگزیکٹو نے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی لاپتا افراد نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن کے متعلق بہت کچھ بتایا، کمیشن لاپتا افراد کے لواحقین پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کو اذیت دیتے رہے، جنہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، معاملات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں ان پر قانون سازی کریں، بھارت نے یہی کیا، دیگر ممالک نے یہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ناقابل برداشت ہے، عدالت چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائے گی، اس ملک میں کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، یہ عدالت سول سپرمیسی آئین کی منشا کو یقینی بنائے گی۔ چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ جبری گمشدگیوں پر سکیورٹی کونسل کے ہر رکن کو عدالت ذمہ دار ٹھہرائے؟۔ لاپتا افراد کے پرانے کیسز پر لواحقین کو مطمئن کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آئندہ کسی شخص کو لاپتا نہیں ہونا چاہیے، تلاش کرنا عدالت کا نہیں ریاست کا کام ہے، ریاست کے پاس ایجنسیز ہیں، دیگر ذرائع ہیں، جائیں اور تلاش کریں۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہاکہ 21 سال پرانا کیس 10 دن میں حل کرنے کا کہنا تو درست بات نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سول بالادستی اور اداروں پر حکومت کا کنٹرول آئین کے مطابق ہونا چاہیے، وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی ویڈیوز موجود ہیں، یہ عدالت کیسے مان لے کہ ریاست اتنی کمزور ہے کہ اس کی تحقیقات نہ کر سکے، ایس ای سی پی کے ایک افسر کو اٹھایا گیا اس نے واپس آکر کہا کہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی شہری کو شک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ان کو کون اٹھاتا ہے، وزیر اعظم صاحب یہ قومی سلامتی کا ایشو ہے، ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے نہ یہ عدالت مانتی ہے، آئین سپریم ہے اور اس پر عمل ہوگا۔ اس دوران وزیر قانون نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یو این سیکرٹری جنرل کو وزیر اعظم سے ملنے ساڑھے 10 بجے آنا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم آپ کا شکریہ کہ آپ آئے، جبری گمشدگیوں کو ختم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے وزیر اعظم کو جانے کی اجازت دے دی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہر حکمراں ذمہ دار ہے، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اور اس کے بعد ایک فیصلہ دے گی۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ تیار ہیں تو آج دلائل دیں پھر عدالت ایک فیصلہ دے، ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں کیا کر سکتا ہوں، یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ میرے پاس تو اختیار ہی نہیں اختیار تو کسی اور کے پاس ہے، اگر آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے تو پھر اپنا آفس چھوڑ دیں۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ دلائل وہاں دیے جاتے ہیں جب اختلاف ہو، میں نے، وزیر قانون اور وزیر داخلہ نے اس معاملے پر بہت سنجیدگی سے مشاورت کی ہے، خدا کی قسم اگر پاکستان نہ ہو تو میں یہاں کھڑا نہ ہوں۔ آپ نے وزیراعظم کی ذمہ داری لگائی ہے، ہم کام کریں گے، آپ ہمیں تھوڑا موقع دیں پھر آپ کو شکایت نہیں ہوگی، اگر ہم ذمہ داری پوری نہ کر سکے تو میں آ کر کہوں گا کہ میں ناکام ہوگیا۔ اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ متحدہ حکومت ہے اور حکومت کے اتحادیوں کا یہ اپنا مسئلہ ہے، اس حکومت نے اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں، پرامید ہوں کہ ہم کسی منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں 2 ماہ کا وقت چاہیے، یہ کام 2 دن میں نہیں ہو سکتا، اس عدالت کی نگرانی موجود رہے تو شاید ہم کسی حل کو پہنچ جائیں گے، جب یہ کیس چل رہا ہے تو ہمیں بھی احساس ہے کہ یہاں جواب دینا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ایک فیصلہ دینا چاہتی ہے، وہ ان مسائل کے حل میں فائدہ دے گا۔ وزیر قانون نے جواب دیا کہ یہ عدالت سول بالادستی کے بعد سب سے زیادہ تکریم پارلیمنٹ کو دیتی ہے، ورنہ جتنی بے توقیری پارلیمنٹ کی ہوئی کسی ادارے کی نہیں ہوئی، پارلیمنٹ کو تالے لگائے گئے، پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی جو اس کے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہیں، یہاں پر جگہ جگہ بارودی سرنگیں ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا انٹیلی جنس ایجنسیاں کس کے ماتحت ہیں؟ کوئی چیف ایگزیکٹو خود کو بے بس ہونے کا بہانہ نہیں بناسکتا، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس عدالت میں چیزیں خراب ہو رہی ہیں لیکن رجسٹرار ذمہ دار ہے، اگر آپ یہ جواز دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کو جاری رکھے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مجبور ہوں، اگر کوئی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا اور سمجھتا ہے کہ وہ مجبور ہے تو وہ اس کا ذمہ دار ہے، اگر چیف ایگزیکٹو کہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں میرے ماتحت نہیں تو وہ آئین سے انحراف تسلیم کرتا ہے، جو چیف ایگزیکٹو یہ تسلیم کر لے اس کو پھر عہدہ چھوڑ کر گھر جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا فورم ان کو بتا دیں جو لاپتا افراد کے لواحقین کے لیے ہر وقت دستیاب ہو، یہ ایک دوسرے پر الزامات کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا وقت ہے۔