پاکستان میںحالیہ سیلابوںسے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ کھربوں روپے بتایا جاتا ہے جو کہ ملکی معیشت کا ایک کثیر حصہ ہے ۔پہلے سے ہی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے وینٹی لیٹر پر چلنے والی ریاست کا یہ بھاری بھرکم خسارہ لاغر قومی بجٹ اور انفرادی گھریلو بجٹ دونوںپر آنے والے دنوں میں شدید بوجھ کا سبب بنے گا اور اس کے اثرات مرتب ہونا بھی شروع ہو چکے ہیںیہی وجہ ہے کے اتنے وسیع پیمانے پر سیلابی تباہی کو دیکھ کر بین الاقوامی برادری بھی مدد کے لئے میدان میں اتر آئی ۔امریکہ ،یورپی یونین،عرب ریاستوں،چین اور ترکی سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک نے اس مصیبت کی گھڑی میںبھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق پاکستان کے لیے امداد کا علان کیا جو کہ انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ بیرونی دنیا سے ملنے والی یہ امداد شفافیت سے کتنی بھر پور ہو گی یا پھر حسب روایت ریاست کے کچھ مکروہ کرداروں کی بنا پر بد انتظامی اور بد دیانتی کی وجہ سے لوٹ مار کا شکار ہوتے ہوئے بندر بانٹ بن جائے گی۔ یہ اہم ترین سوال ہے ۔اس کو سمجھنے کے لئے متحدہ عرب امارات کی پاکستانی عوام کو دی جانے والی امداد کے لیول کو دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے وزیراعظم یا حکومت کے امدادی اکاﺅنٹ میں رقم جمع کروانے کی بجائے رقم پاک آرمی کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کی۔ یہ بات ہماری قوم کا فخر ہے کہ مشکل وقت میں پاکستانی عوام بیرونی ممالک کی امداد کے منتظر ہو نے کی بجائے خود فوری میدان عمل میں اتر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کی چند بہترین فراخ دل اقوام میں ہوتا ہے اور مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس فراخ دل قوم کا حصہ ہوں۔ اس مصیبت کی گھڑی میں ہم اپنی این جی او حیات نو ویلفئر سوسائیٹی (جسکی صدارت کے منصبی فرائض بھی ادا کررہا ہوں) کے ذریعے سیلاب متاثرین کے لئے راشن سے بھرا یک ٹرک لے کر گئے۔ جماعت اسلامی کے ادارہ الخدمت فاﺅنڈیشن نے قریب دو سو خاندانوں کے ایک ماہ کے راشن کو متاثرہ علاقہ میں پہنچانے میں ہماری مدد و رہنمائی فراہم کی۔ ہماری منزل کوہستانی پہاڑوں کے سیلابی ریلوں کی زد میں آنے والے علاقہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھوٹہ جو کہ ڈی جی خان سے بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے کے مزید 30 کلو میٹر دورمتاثرہ دیہاتی علاقہ تھے۔
اہم بات یہ کہ پنجاب اور سندھ کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے وڈیروں جاگیر داروں اور قبائلی سرداروں کی جاگیریں ہیں ۔ ان دور افتادہ سیلاب زدہ علاقوں میں ذاتی طور پر امدادی سرگرمیوں میںحصہ لینے کا مقصد نہ صرف جذبہ خدمت خلق تھا بلکہ قریب سے ان جا گیروں میں بسنے والے مزارعوں،ہاریوں اور غریب کسان باسیوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کرنا بھی تھا۔ ہمارا پڑاو ¿ اویس لغاری کے آبائی شہر چوٹی زیریں کے مضافاتی دیہات اڈا سمندری تھا جہا ں اس علاقہ میں کپاس اور تل کی فصل کو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جو کہ انکی روزی روٹی اور کل متاع تھی اجڑی فصلوں ،مٹی گار ے کے بنے ہوئے ٹوٹے ہوئے گھروں کے ان غریب مالکان میں امدادی اشیا ءکی تقسیم کے دوران ان مفلو ک الحال چہروں کو خوب پڑھ سکے جن کے پھٹے کپڑے ،ٹوٹے جوتے، بے بسی اور لاچارگی ہمیں بہت سی داستانیں بتا رہی تھی۔ یہ لوگ ان جاگیروں کے باسی ہیں جن کے مالکان کی تیسری نسل اقتدار کے اِن اور آوٹ کے عمل کوایک کھیل کے طور پر لیتی ہے جو کہ آوٹ تو کم ہوتے ہیںلیکن اقتدار میں نہ صرف ان ہوتے ہیں بلکہ بڑی بڑی وزارتوں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اسی امدادی سرگرمی کے دوران ہمیں ملک بھر سے قومی و علاقائی رفاعی اداروں اور آرمی کے امدادی ٹر ک سامان لے جاتے نظر آئے لیکن اگر کچھ نظر نہیں آیا تو لینڈ لارڈز کی ہزاروں اور لاکھوں ایکڑز پر پھیلی زمین کے مالکان اینڈ کمپنی کی کوئی امدادی سرگرمی تھی۔ حیرت اس امر کی تھی ان متاثرہ جاگیر داروں کے دیہاتوں کی رابطہ سڑکیں اتنی شاندار تھیںکہ چھوٹی موٹر ویز محسوس ہوتی تھیں اور سیلاب کے باوجود بھی کم متاثر ہوئی ہیں سیلاب کے بعد پھر سے ان علاقوں میں سب نارمل اور اچھا ہو جائے گا لیکن اچھی نہیں ہو گی تو ان لوگوں کی حالات زار اچھی نہیں ہو گی ہاںلیکن اتنا ضرورہے کہ اگر نسل در نسل انہی پسماندہ لوگوں پر حکومت کرنے والے اور انکو اپنی رعایا سمجھنے والے اپنے اپنے علاقہ کی امدادی ذمہ داری لے لیں تو آدھا مسلہ حل ہو سکتا ہے۔ خیران دور افتادہ علاقوں کے شہریوں کی تعلیمی پستی کی بنا پر سوچ اور افکار میں بھی پستی دیکھنے میں ملی ۔ ان لوگوں کا بنیادی مسئلہ تعلیم سے دوری ہے۔ اگر ان غریب ہاریوں کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر لیا جائے تو انکا مستقبل مستقل طور پر سنور سکتا ہے۔ ان امدادی سرگرمیوں کے دوران سامنے آئے تجربات میں سے ایک یہ کہ ہمیشہ آفت زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کو انفرادی طور پر اس کا اہتمام مت کریں کیونکہ بہت سے علاقوں میں چند بد قماش متاثرین نے اپنے ہی لوگوںکو لوٹ مار کاشکار کیا جس کی بہت سی فوٹیج بھی سامنے آچکی ہے۔ ہمیشہ ملک گیر رفاعی ادارے ، تنظیم یا جماعت کا انتخاب بڑی محنت سے اکٹھے کئے جانے والے امدادی سامان کی صحیح تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔ اس ضمن میں پاک آرمی کی کارکردگی فقید المثال ہے۔ جبکہ الخدمت فاﺅنڈیشن اور جماعت اسلامی کی منظم امدادی سرگرمیاں بھی قابل ستائش ہیں۔ ڈیرہ غازی خان جماعت اسلامی کے امیر واحد بخش اور تحصیل کوٹ چھوٹہ کے امیر زاہد حسین حقیقی معنوں میں متاثرین کے دکھوں اور غموں کا مداوا کرنے کے لئے نہ صرف فیلڈ میں متحرک نظر آئے بلکہ دوسرے شہروں سے آنے والے امدادی وفود کی رہنمائی اور انکی حفاظت کرنے میں بھی فکر مند نظر آئے ۔
٭....٭....٭