تینوں رب دیاں رکھاں

موجودہ حالات وواقعات پہ لکھنے بیٹھوں تو لگتا ہے ہر طرف مسائل ہی مسائل چل رہے ہیں۔ مسائل بھی ایسے جو ایک تواترسے چل رہے ہیں اور اگرچہ یقین واثق ہونے کے باوجود کہ برے دن بھی گزر ہی جائیں گے اورگزر بھی جاتے ہیں۔ ہر طرف ایک مایوسی کاساسماں ہے۔ ا±مید کی کوئی کرن کسی روزن سے دریچوں میں دخل اندازی کرنے نہیں آتی، گزشتہ کئی سالوں سے سیاست کا میدان گرم ہے ۔ہرروز تازہ واردات لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے لئے ڈالی جاتی ہے۔ کئی سال کرونا کے مسائل سے نبردآزمائی میں گزر گئے۔ پھر کچھ سکھ کا سانس آیا ہی تھا کہ ڈینگی کا ہمہ وقت کا مسئلہ سراٹھانے لگا۔ سیلاب کی تباہ کاریاں نا قابل ِ بیان ہیں، ہرطرف دکھ ہی دکھ ہے، بے گھری اور بے سروسامانی نے ہم جیسے گھروں میں سکون کی نیند سونے والوں کی نیند بھی چھین لی ہے۔ لیکن امیدافزاء ہیں لوگوں کے وہ روئیے جو مصیبت زدگان کے لئے چھترچھاﺅں بن جاتے ہیں۔ اگرچہ سائنسی تجزئیے کے مطابق یہ آزمائش موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ تھی۔ملک کے تین حصوں کو اس بہت بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ باقی تینوں صوبوں کے علاوہ جنوبی پنجاب بھی اس کی زد میں آ گیا۔ لاکھوں گھر ٹوٹے، سمجھو کروڑوں سپنے بھی ٹوٹ گئے، کاروبار تباہ ہوئے، فصلیں ڈوب گئیں ۔نہ گیس ، نہ بجلی نہ پینے کا صاف پانی ہے بلکہ اس پانی میں قید ہی ہوکر رہ گئے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ کالم میں اس مسئلہ پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے لیکن اس وقت مسئلہ اس سے آگے کا ہے ۔ معاملہ کچھ اور گھمبیر ہے میں نے اپنی آنکھوں سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو امدادی کیمپوں میں اپنا جیب خرچ تک دیتے ہوئے دیکھا، حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک نے مدد کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے، بہت سے علاقوں تک سامان پہنچانے کی کوشش بھی کچھ نیک دل لوگوں کی ہمت کی گواہی ہے۔ لیکن بغیر چھت کے کچھ پکانا بھی تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کھانے پینے کی وافر اشیاء تو فراہم کی جارہی ہیں لیکن ضرورت اس وقت زیادہ تعمیر شدہ گھر فراہم کرنے کی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر کچھ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ امدادی سامان میں بھی خردبرد ہورہی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوتاآیا ہے ۔ایسے مردہ دلوں میں خوف خدا بھی نہیں ہے، خیران حالات میں جلسے جلوسوں کا تماشہ بھی سربازار لگا ہوا ہے، مفادات کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایک پارٹی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس وقت ساری ہمدردیاں اور ساری توانائیاں سیلاب زدگان کے لئے وقف کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، افسوس کہ ملک کے لوگوں پر آنے والی اتنی کڑی آزمائش بھی سیاست دانوں کے دلوں میں نرمی ، آپس میں اتحاد اور ان لوگوں کے لئے کچھ کرسکنے کی طاقت باہم یکجانہ کرسکی، میں شاید اپنی عادت سے مجبور ہوں بہت بار سوچاکہ سیاست سے ہٹ کر کچھ لکھوں لیکن ان سیاستدانوں کے ہاتھوں جو ہماری درگت بن رہی ہے جو ملک کے حالات ہوچکے ہیں جو کچھ عوام بھگت رہے ہیںاور جس پریشانی کا سامنا کر رہیں ہیں، باقی ہر موضوع اس کے سامنے ثانوی سا لگنے لگتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں میں مکمل شعور اس دن آئے گا جس دن وہ ہر سیاسی رہنما کو اپنا باپ اپنا لیڈراپنا سب کچھ سمجھنا چھوڑ دیں گے ۔جس دن انہیں سمجھ آجائے گی کہ ہم لوگ ان کے دم سے نہیں ہیں، بلکہ ان کا وجود ہماری وجہ سے ہے، ہم اہم ہیں ہمارے اپنے نظریات ہماری ضروریات ،ہمارے مسائل ان سب سے زیادہ اہم ہیں، باقی ان سب تلخیوں کو سب مسائل اور تکالیف کو کل کے افغان/پاکستان میچ نے کچھ لمحوں کے لئے بھلا کر ہر دل کو خوشی سے شاد کردیا، اگرچہ مجھ سمیت کھیل کے میدان میں افغانیوں کی پاکستان سے شدت کی نفرت ہر آنکھ نے دیکھی اور ہر دل نے محسوس کی۔ بہت سے افغانی آج بھی پاکستان کے رہائشی ہیں اور یہاں عزت سے زندگی گزار رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی زمین ہی نہیں عوام نے بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا، یہ غصہ یہ نفرت عام عوام سے بے جا ہے۔ قربانیاں پاکستانی لوگوں کو بھی اپنی جانیں گنوا کر دینی پڑیں ایک اندازے کے مطابق اس وقت40لاکھ افغانی پاکستان میںرہائش پذیر ہیں، بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے جس پر الگ سے ایک کالم لکھا جاسکتا ہے، تمام میچ ایک طرف لیکن نسیم شاہ کے دو چھکوں نے جو میچ کا پانسہ پلٹا اسے شارجہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گااور ہر پاکستانی ہمیشہ اس لمحے پر فخر کرے گا۔ شاہین آفریدی کے بعد ایک اور بہترین بلے باز میدان میں تاریخ رقم کر نے کو تیار ہے، ایسے ہرپاکستانی ہیرو کے لئے کہوں گی کہ تینوں رب دیاں رکھاں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...