گزشتہ دنوں ایک مقامی ہسپتال میں جانا پڑا مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک ایسے مریض کو لایا گیا جو بقول ڈاکٹر دل کے عارضے میں لیکن گھر والے مصر تھے کہ اسکو بل کا عارضہ ہے موصوف دن بھر کی مزدوری اور مشقت کے بعد گھر آیا تو بیوی کی کرخت آواز پر گھبراگیا اجی سنتے ہو منی کی دو ماہ کی سکول کی فیس آگئی ہے موصوف نے خود کو سنبھالا اور بولا نیک بخت ہوجائیگا انتظام۔ بیوی کی کرخت آواز ایک بار پھر گونجی گھر میں پکانے کے لئے کچھ نہیں۔ تو کوئی دال وغیرہ پکالو وہ منحنی سی آواز میں بولا گھر میں کچھ بھی نہیں بیوی نے جواب دیا موصوف نے ناگوار سے انداز میں نیک بخت کی طر ف دیکھا اور بولا بازار سے لے آتا ہوں ابھی موصوف اٹھا ہی تھاکہ نیک بخت نے سودے کی فہرست کی بجائے بجلی کا بل ہاتھ میں تھمادیا بس پھر کیا تھا وہ موصوف زمین پرگر کر آنافانا تڑپنے لگا ڈاکترز پر یہ عقدہ کھلا کہ دل کا عارضہ ہے جب کہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اسے بل کا عارضہ ہے اور بل کے عارضے نے عام انسان کو زمین میں دھنسا دیا ہے موصوف دل کے عارضے سے پہلے وہ محنتی انسان تھا نہ وہ منی کی فیس سے نہیں گھبراتا تھا اور نہ ہی سودا سلف لانے سے لیکن اکثر بجلی کے بل پر دل تھام لیتا بقول شاعر
مشتاق درد۔ بل جگر بھی دل بھی ہے
کھاو¿ں کدھر کی چوٹ بچاو¿ں کدھر کی چوٹ
ایک صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کی تباھی کا سبب کونسا ہے معاشی پسماندگی ہشت گردی یا قانون کی پامالی تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ان میں سے کوئی نہیں اصل قصور ہماری نیتوں کے فتور کا ہے پچھتر سالوں سے ہم پاکستان کی بدحالی کا نوحہ پڑھ رہے لیکن ہم نے آنکھیں کھول کر مسائل کو دیکھا ہی نہیں پچھلی حکومتی ہمیں زہر لگتی ہیں اور انے والی کسی اور حکومت کو ہم افورڈ نہیں گرسکتے ایک بہت بڑا مورخ کنفیوشس لکھتا ہے کہ قدیم حکمران جب اپنے حالات درست کرنا چاہتے تھے تو اپنے دل کو درست کرتے تھے دل کی درستگی کے بعد سارے معاملات درست ہوجاتے تھے لیکن دل می کجی آتے ہی درست منصوبے بھی کجی کا شکار ہوجاتے ہیں ایک بار محمود غزنوی نے ایک علاقے کی فتح کے بعد اپنے غلام ایاز سے کہا کہ میرے پاس اتنی طاقت ہےکہ تاحد نظر پھیلے علاقے تاراج کرسکتا ہوں اس پر ایاز نے مودبانہ کہا کہ حضور کا اقبال بلند ہو میرے اللہ نے اپ کو اتنی طاقت سے نوازا اس موقع پر ایاز کا عقلمندانہ مشورہ تو یہ ہی ہونا چاہیے تھاکہ کسی بھی علاقے کو تاراج کرنے سے پہلے وہاں کی عوام کی تاراجی کا ضرور سوچئیے طاقت مسائل کا حل نہیں ہوتے وگرنہ ہٹلر تاریخ کا سب سے بڑا طاقتور ہوتا معاشرہ دو اکائیوں انصاف اور احترام سے چلتا ہے ان میں سے کسی ایک اکاءکو اپ ختم کرتے ہین تو معاشرے ڈانواں ڈول ہوجاتے ہین اور صرف چنگیزی رہ جاتی ہے دین ایک لفظ ہی نہیں اسکے ہمہ گیر مفہوم ہین جو انسان معاشرہ اور جماعتوں پر سیر حاصل بحث کرتا ہے ان کے حقوق کیا ہیں آزادی کیا ہے دواری انصاف احترام انسانیت کے تقاضے کیا ہیں مکمل ناپ تول کے اس نظام می تھوڑی سی کمی بیشی زوال کا پیش خیمہ بن سکتی ہے دل کی ستھرائی ہی دین کا خاصہ ہے بات بل سے دل تک آپہنچی گزشتہ دنوں میرے گھر کام کرنے والی خاتون کو میں نے بہت پریشان پایا استفسار پر پتہ چلا کہ پچھلی حکومت کے دور میں اسکا تین ہزار بل آتا تھا اس حکومت کے دور مین تیس ہزار بل آیا ہے افسردہ سا چہرہ لئے وہ بولی باجی میں تین گھروں میں کام کرتی ہوں اور اتنا نہیں کما پاتی جتنا جتنا بل آگیا ہے اس نے آنسو صاف کئے اور جاتے ہوئے بولی چنگی نہیں کیتی ۔اسکا دکھ معاشرے کا دکھ بن کر سوال کررہا ہے کہ ان سولہ ماہ میں ان کے ساتھ وہ ظلم ہوا جو پاکستان کے کسی دور میں نہیں ہوا