دیکھیں ایک مرتبہ پھر سب کی نظریں آرمی چیف پر ہیں۔ پندرہ برس کی مسلسل جمہوری حکومتوں کے بعد بھی بنیادی مسائل آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ مسائل گھمبیر ہو چکے ہیں۔ جمہوری تسلسل کا تحفہ ہے ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے، بجلی کے بلوں نے عام آدمی کا جینا دو بھر کر دیا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے موٹر سائیکل چلانے والوں کو پیدل چلنے پر مجبور کر دیا ہے، ابھی گیس کی قیمتیں بڑھیں گی، کھانے پینے کی بنیادی اشیا کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں۔ دس پندرہ روپے میں ملنے والی ایک چیز آج ایک سو دس بیس یا اس سے بھی زیادہ پیسوں میں ملتی ہے۔ یہ جمہوریت اور اس جمہوری نظام کے تحفے ہیں اور واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اب یہ انتقام تو عام آدمی سے لیا گیا ہے۔ جمہوری حکومتوں نے ملک کی برآمدات بڑھانے درآمدات کم کرنے اور توانائی کے متبادل ذرائع پر کام کرنے کے بجائے ہر وہ کام کیا جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ لوگوں میں بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے، لوگوں کا صبر جواب دے رہا ہے، بجلی کے بل تو اپنی جگہ ہیں اب تو چھوٹے چھوٹے گھروں میں پانی کا بل دو تین ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں زندگی کی گاڑی کا پہیہ رکا رکا محسوس ہو رہا ہے۔ ان مشکل حالات میں ایک مرتبہ پھر سب کی نظریں افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر پر ہیں۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ کے مطابق آرمی چیف کے اقدامات سے مثبت اثرات آ رہے ہیں۔ سمگلرز اور ہورڈنگ کرنے والے پریشان ہیں لیکن دیکھنا ہے کہ کریک ڈاو¿ن کتنا دیرپا رہتا ہے۔ ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح ایسا نہ ہو کہ کریک ڈاو¿ن ختم ہوتے ہی ڈالر پھر اوپر چلا جائے، صرف ڈنڈا چلانے سے کام نہیں چلے گا، ہمیں اپنی پالیسیاں بھی صحیح کرنےکی ضرورت ہے۔
جب آپ اس بیان کو یا گذشتہ چند روز میں ہونے والے فیصلوں کو دیکھتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کام کسی نگران حکومت کے کرنے والے ہیں یا پھر ایسے بڑے اور اہم فیصلوں کے لیے کسی منتخب حکومت کو آگے آنا چاہیے تھا۔ اب اگر سمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں تو پی ڈی ایم حکومت یا پی ٹی آئی نے یہ کیوں نہیں سوچا، کیوں ان سیاسی جماعتوں نے ڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لیے فیصلے نہیں کیے۔ اب بجلی چوروں، سمگلروں، ذخیرہ اندوزی کرنے والوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو یہ کام منتخب حکومتوں نے کیوں نہیں کیا۔ اب کسی نے کچھ کیا ہے تو
جمعہ کو انٹربینک میں ڈالر کی قیمت مزید کم ہوئی اور ڈالر ایک روپے 99 پیسے سستا ہوکر 302 روپے 95 پیسے کا ہو گیا۔ اسی طرح ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ستائیس ہزار تین سو روپے کمی ہو چکی ہے۔ جب سونا مہنگا ہو رہا تھا اور ڈالر کی اونچی اڑان تھی اس وقت تو منتخب حکومت تھی لیکن پائیدار اقدامات کے بجائے میک اپ کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ منتخب حکومتوں کو کس مشکل فیصلے کرنے سے کس نے روکے رکھا۔ آج ملک میں سورج کی روشنی سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور بازار جلد بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں کیا یہ فیصلہ کسی منتخب حکومت کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہماری منتخب حکومتوں نے اپنے لیے تو قوانین بنائے لیکن ملک و قوم کے لیے جو کرنے کی ضرورت تھی وہ کام بالکل نہیں کیے۔ اب یہ وقت آ چکا ہے کہ بہت سارے کاموں میں ہمیں غیر ضروری مشاورت کے بجائے فیصلے کرنا ہوں گے اور ان فیصلوں پر بے رحمانہ انداز میں عمل کرنا ہو گا۔ کرونا وبا کے دنوں میں لاک ڈاو¿ن کا فیصلہ ہوا ملک کا فائدہ ہوا، بازاروں کے اوقات کار طے کیے گئے ملک و قوم کا فائدہ ہوا اس وقت بھی ہمیں ایسی ہی سختی کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو اپنا طرز زندگی بدلنا ہو گا۔ ایسے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ دفاتر اور بازاروں کے اوقات کار ملکی ضرورت کے مطابق طے کریں۔ دفاتر میں ہفتہ وار دو چھٹیاں کریں۔ بازار شام کے وقت بند ہو جائیں رات گئے مارکیٹیں کھلے رکھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ یہ کوئی طریقہ ہے کہ تاجر دکانیں جلدی کھولنے اور بند کرنے کے لیے رضامند نہیں۔ توانائی بحران سے نکلنے کے لیے انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اگر منتخب حکومت کی رخصتی کے بعد چینی کی قیمت میں کمی آ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جمہوری حکومت نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ یعنی انہوں نے کسی نہ کسی کو تو فائدہ پہنچایا ہے۔ کیونکہ کوئٹہ میں فی کلو چینی کی قیمت میں مزید بیس روپے کمی ہوئی ہے۔ پشاور میں ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت میں تین روپے فی کلو کی کمی ہوئی ہے۔ شوگر ڈیلرز کے مطابق جنوبی پنجاب کی چینی ملوں کا ہول سیل ریٹ ایک سو پچپن روپے فی کلو پر آ گیا ہے اور سینٹرل پنجاب کی چینی ملوں کا ہول سیل ریٹ ایک سو انسٹھ روپے فی کلو پر آ گیا ہے۔
ان مشکل حالات میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے بہت توقعات ہیں۔ چونکہ وہ بہت سارے معاملات کو دیکھ رہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں گوکہ اس سلسلے میں کئی مشکلات ہیں لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لیے ایسی بنیاد ضرور رکھیں گے جس پر آنے والے وقت میں ہم ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔ کاش یہ کام جمہوری حکومتیں کرتیں لیکن بدقسمتی سے سب اپنے اپنے کاموں میں لگے رہے اور چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کے ملک میں اکثریت کے لیے زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔ ملک میں ڈالر کی خرید و فروخت کے حوالے سے بھی سختی کی ضرورت ہے۔ لوگ پیسہ بنانے کے لیے ڈالر جمع کرتے رہتے ہیں۔ یہ کیسا کام ہے۔ ڈالر کی غیر ضروری خرید و فروخت پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔ دعا ہے کہ نگراں حکومت ملک کو بڑے مسائل سے نکالنے میں کامیاب ہو۔ یاد رکھیں ابھی تو ہم توانائی بحران سے دوچار ہیں اگر ہم نے عقل استعمال نہ کی تو پھر پانی کا بحران بھی آ سکتا ہے۔
آخر میں راہی معصوم رضا کا کلام
اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر م±سکراتے رہے
میں بہت دیرتک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر مِلتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا، زندگی کی طرف اِک دریچہ ک±ھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں، چوٹ کھاتے رہے، گ±نگ±ناتے رہے
سخت حالات کے تیزطوفان میں، گِر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا
ہم چراغِ تمنّا جلاتے رہے، وہ چراغِ تمنّا ب±جھاتے رہے
کل کچ±ھ ایسا ہ±وا میں بہت تھک گیا، اِس لیے س±ن کے بھی اَن س±نی کر گیا
کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
ایک مرتبہ پھر نظریں آرمی چیف پر!!!!
Sep 10, 2023