تھالی میں رکھا پاکستان

Sep 10, 2023

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

جب بھی قیام پاکستان کے ناشکروں ناقدروں کو سنتے پڑھتے ہیں تو بزرگوں کا تلخ جملہ یاد آجاتا ہے “ ناشکروں کو پاکستان تھالی میں رکھا جو مل گیا نا۔ بے قدری تو کریں گے۔چودہ اگست کے ڈیفنس لاہور کے کانسرٹ میں پاپ سنگر علی عظمت کا بیہودہ جملہ بھی ابھی تک کانوں میں زہر اگل رہا ہے۔ کہتا ہے “ اقبال خواب دیکھنے کی بجائے فلم دیکھ لیتے “۔۔۔ یہ ہیں وہ نا شکرگزار، نا قدردان، احسان فراموش لوگ جو اسلاف محسنوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور شہرت نام پہچان دولت بھی اقبال کے خواب کے صدقے لوٹ رہے ہیں۔ھم جب اپنے اسلاف کی تحریریں پڑھتے ہیں تو تاریخ پاکستان کے اصل حقائق سے پردہ اٹھتا چلا جاتا ہے۔ہندو نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔یورپی اور مسیحی قومیں خصوصاً انگریز اس بر عظیم میں اسلام کے نام پر کسی مملکت کا ظہور قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔منحوس سوال کہ” اگر پاکستان نہ بنتا تو آیا ہم اس اعتبار سے اچھے رہتے، “اٹھا ہی کیوں ؟قائداعظم نے فرمایا تھا”اگر پاکستان بن گیا تو ہندو بھارت مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مسلمانوں کو دھمکانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ آزاد، خود مختار مستحکم اور مسلم پاکستان اکھنڈ بھارت کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے۔ قائداعظم نے مزید فرمایا کہ اگر ہم ڈوبے تو سبھی ڈوبیں گے۔۔۔
قیامِ پاکستان سے 3روز پہلے کراچی میں دستور ساز اسمبلی پاکستان کے اجلاس سے خطاب دوران قائد اعظم نے فرمایا :
'' تقسیم عمل میں آچکی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو اس سے اتفاق نہ کریں اور اسے پسند نہ کریں۔ لیکن میری رائے میں اس مسئلے کا اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ تاریخ اس کے حق میں فیصلہ صادر کرے گی”۔۔
اگرپاکستان نہ بنتا تو بھارت زوال پذیربرطانوی قوت کا طاقتور جانشین ہوتا۔ہندو دائمی حکمران اور مسلمان دائمی غلام اور اقلیت ہوتے اور ہندوکا طوطی “کابل تا کراچی اور گوادر تا مراکش بولتا”۔مشرق وسطیٰ، شام، مصر، سوڈان، لیبیا، تیونس، الجزائر، سعودی عرب اور افریقہ کے دیگر ممالک بھی ہندو بھارت کے اشارہ پراپنی حکومت اور پالیسی بنا لیتے اور تقریباً یہی کیفیت متحدہ بنگال (یعنی مشرقی پاکستان حالیہ بنگلہ دیش کے بغیر) سے ملاایشیا تک ہوتی۔برطانیہ ایک چھوٹا جزیرہ تھا اور ہے مگر جب براعظم برطانیہ کے زیرتسلط آیا تو برطانیہ ہندی فوج کی بنیاد پر عالمی طاقت بنا اور پھر ہانگ کانگ سے نہر سویز تک برطانوی عملداری شروع ہو گئی۔
اسی دور میں عالمی اتحادی طاقتوں برطانیہ، روس اور امریکہ نے مسلمانوں کے دل میں اسرائیلی ریاست کا ناسور بویا اور مسلمانوں میں مرضی کے مذہب اور معیشت کے لئے قادیانیت کا پودا بھی کاشت کیا۔
پاکستانی عوام اس سوال کو ان کے ایمان کے خلاف آوازسمجھتے ہیں،ایسے سوال کو وہ اپنی توہین گردانتے ہیں،لہذا انہوں نے ایسے سیکولر عناصر کو جو محراب و منبر اور کرسی و دفاتر کی زینت ہیں ٹھکرا دیا ہے۔اہلِ پاکستان کی اکثریت کا پاکستان پر بھرپور ایمان قائم ہے اور قیامت تک یہ ایمان قائم رہے گا انشاءاللہ۔کچھ علمائے سوءاور دین کے علمبرداروں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بھی مسلمانوں کا دل دکھایا تھا اور آج بھی قیام پاکستان کی ناشکری کر رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں امت کو ایک قد آور قائد میسر تھا،جس کی بصیرت ،اخلاص،ذہانت اور سب سے بڑھ کر امانت داری پر مسلمانانِ ہند کو بھرپور اعتماد تھا اور آج ایسا کوئی مرکزی فرد موجود نہیں۔بھارت پاکستان کا وجود اس برعظیم سے مٹانے کے درپے تھا اورآج اب بھی درپے ہے۔
ویسے ہندو مسلمان ایک ہی بر عظیم میں آباد ہونے کے باوجود اکٹھے کبھی نہیں رہے۔حق یہ کہ امتحان اور آزمائش کا وقت اب آیا ہے،جب بھارت میں ہندو حاکم کی طرح مسلط ہو گیا ہے۔بھارتی مسلمانوں کو نقب لگ رہی ہے،کشمیریوں پر بے پناہ مظالم توڑے جار ہے ہیں،ایک لاکھ سے زیادہ ان کے معصوم بچے،بے گناہ عورتیں ،جوان اوربوڑھے شہید کئے جاچکے ہیں۔ ان کاقصور صرف یہی ہے کہ ساری دنیا کے سامنے اقوام متحدہ کے روبرو بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے ان کشمیریوں کے ساتھ جو حق خود د ارادیت کا وعدہ کیا تھا ،وہ اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک غیرملکی صحافی (غالباً 1946ء ) نے گاندھی سے سوال کیا کہ مسلمان ہندوستان میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اگر مسلمان پاکستان بنانے کا پاگل پن کرنا چاہتے ہیں تو کرنے دیں کیونکہ آزاد بھارت کے لئے پاکستان کو لگام ڈالنا مشکل نہیں ہو گا۔ گاندھی جی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان بن گیا تو افغانستان وسطی ایشیائی روسی ریاستیں ایران اور خلیجی امارات سے مراکش تک مسلم ممالک کی پٹی ہے جو اسلامی پاکستان کی طاقت کا مرکز اور پشت پناہ ہوں گی۔ لہٰذا پاکستان کو بنا کر ختم کرنا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل اور خونریز ہو گا۔
قائداعظم کا فرمان ہے دشمن کو پہچانو اور علامہ اقبال کا ارشاد ہے اپنے آپ کو جانو یعنی دوست، دشمن کی شناخت پاکستان کے استحکام کی ضمانت ہے۔

مزیدخبریں