عوام کیلئے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کی پیدا ہوتی فضا

نگران حکومت نے صنعت سمیت تمام شعبوں کیلئے گیس پھر مہنگی کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں نگران وفاقی وزیر توانائی محمدعلی نے دیگر وفاقی وزراءکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ ہر سال اس شعبہ میں ساڑھے تین سو ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا ممکن نہیں۔ انکے بقول بجلی اور گیس کی چوری کے سدباب کیلئے سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ دوسرے وفاقی وزراءشمشاد اختر‘ اعجاز گوہر اور مرتضیٰ سولنگی نے بھی ملک میں بڑھتی مہنگائی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں مہنگائی سپلائی چین کے بحران کے باعث بڑھی ہے۔ ہم نے آٹے، چینی کی سمگلنگ کو کم کرنا ہے اور ملک کی صنعت کو چلانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ صنعت چلے گی تو ملک کا پہیہ چلے گا۔ انکے بقول بجلی کے حوالے سے آئی ایم ایف سے بات چیت ہوئی ہے۔ یہ معاملہ حتمی مرحلے میں ہے اور اس ہفتہ کے اختتام تک صورتحال واضح ہو جائیگی۔ بین الاقوامی معاملات پر عملدرآمد بہرصورت جاری رہے گا۔ ہم ملکی معیشت کی ترقی کیلئے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ ہمیں معیشت کو بحال کرنا ہے‘ ہمیں اپنی برآمدات بھی بڑھانی ہیں تاکہ ہمارے ہاں نوکریاں پیدا ہوں۔ انکے بقول ملک کا کاروبار بڑھے گا تو مہنگائی کا بحران بھی ختم ہو جائیگا۔ 
وزیر توانائی کے بقول پٹرولیم کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے کیونکہ گیس کے شعبے میں سالانہ 350 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہمارے پاس قدرتی گیس کے ذخائر ہماری ضروریات سے کم ہیں‘ ہم نے بجلی گیس کی چوری کو روکنا اور گورننس کو بہتر بنانا ہے۔ وفاقی وزراءکے بقول حکومتی اخراجات کم کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ 
بجلی کے نرخوں میں بے مہابا اضافے کیخلاف عوام میں پیدا ہونیوالے اضطراب اور ملک بھر میں شروع ہونیوالے احتجاجی مظاہروں کے باعث نگران حکومت کو گورننس کے حوالے سے بجا طور پر تشویش لاحق ہوئی تھی چنانچہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے عوامی جذبات ٹھنڈے کرنے کیلئے عوام کو بجلی کے نرخوں میں ریلیف دینے کے اعلانات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کیلئے انہوں نے متعلقہ وزارتوں کے ساتھ طویل نشستیں بھی کیں مگر بالآخر انکی جانب سے آئی ایم ایف کی لاگو کردہ شرائط کے تناظر میں نہ صرف بجلی کے نرخوں میں کمی نہ کرنے کا پیغام ملا بلکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی دوبارہ بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا۔ نتیجتاً مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی اور ان کیلئے جسم و جان کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا چنانچہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام نے حکومتی پالیسیوں کیخلاف اپنے احتجاج میں شدت پیدا کر دی اور بجلی کی ترسیل سے متعلق اداروں کے دفاتر اور عملے کا گھیراﺅبھی شروع ہو گیا۔ اسی دوران شوگر مافیا نے چینی کا مصنوعی بحران بھی پیدا کر دیا جس سے چینی کے نرخ دو سو روپے کلو سے بھی تجاوز کر گئے۔ اس سنگین صورتحال میں ایک نیا بحران ڈالر کے جستیں بھرنے سے بھی پیدا ہوا جو ساڑھے تین سو کے ہندسے کو چھونے لگا چنانچہ ملکی معیشت کے عملاً دیوالیہ ہونے کی فضا مستحکم ہوتی نظر آنے لگی۔ 
سسٹم کی بقاءکے حوالے سے ملک میں پہلے ہی غیریقینی کی فضا طاری تھی جو ہر روز پیدا ہونیوالے بحرانوں نے مزید گھمبیر بنا دی۔ چنانچہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ملکی معیشت کے سدھار کا بھی بیڑا اٹھایا اور سراپا احتجاج بنے تاجروں کے ساتھ کراچی اور لاہور میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہی ملاقاتوں کے دوران شوگر مافیا‘ بجلی‘ گیس چوروں اور ناجائز ذخیرہ اندوزوں کیخلاف سخت گیر کریک ڈاﺅن شروع کرنے کا حکومتی سطح پر عندیہ دیا گیا۔ اس کیلئے سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس طلب کرکے ضروری فیصلے کئے گئے۔ نگران وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہونیوالے ان اجلاسوں میں آرمی چیف نے بھی بطور خاص شرکت کی چنانچہ جب اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں کریک ڈاﺅن کا سلسلہ شروع ہوا تو یکایک ڈالر اور دوسری غیرملکی کرنسیوں کی قدر دھڑام سے نیچے آنے لگی۔ سونے کے نرخ بھی حیرت انگیز طور پر 25 ہزار روپے فی تولہ تک کم ہو گئے۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کے بادل چھٹنے لگے اور کاروباری سرگرمیاں تیز ہو گئیں جس سے قومی معیشت کے اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کے امکانات مضبوط ہو گئے۔ جب چینی کے نرخ بھی کم ہوئے تو عوام کو مہنگائی سے خلاصی ملنے کی توقع پیدا ہو گئی۔ گزشتہ روز تک اس معاملے میں فضا سازگار اور خوشگوار ہوتی ہی نظر آئی مگر سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایپکس کمیٹی کے پانچویں اجلاس کے بعد عوام کو مہنگائی کے نئے جھٹکے لگانے کے پیغامات ملتے نظر آنے لگے۔ توانائی کے وفاقی وزیر نے ہر شعبے کیلئے گیس کے نرخوں میں اضافے کا عندیہ دیا تو دوسری جانب نگران حکومت کی جانب سے عوام پر ایک اور بجلی بم گرانے کا ”مژدہ“ سنا دیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ ایک روپے 46 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کا اطلاق رواں ماہ ستمبر میں جاری ہونیوالے بجلی بلوں پر ہوگا۔ 
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے میں کتنی مخلص ہے اور اب مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا مزید کیا حشر ہونیوالا ہے۔ اس تناظر میں عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومتی سخت گیر اقدامات کے نتیجہ میں ڈالر کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور بجلی چوری کی روک تھام سے بجلی کی مصنوعی قلت پر قابو پانے کے آثار بھی پیدا ہو چکے ہیں جس کے ملکی معیشت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں تو ان حکومتی کامیابیوں کے ثمرات عوام تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے اور انہیں مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے کی پالیسیاں ہی کیوں اختیار کی جارہی ہیں۔ 
یہ صورتحال ہمارے معاشرے کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہونی چاہیے کہ یہاں عام آدمی تو عملاً زندہ درگور ہو رہا ہے مگر حکمران اشرافیہ طبقات کی شاہ خرچیوں اور اللوں تللوں میں کمی کے بجائے مزید اضافے کے راستے ڈھونڈے اور نکالے جا رہے ہیں۔ چنانچہ امیر اور غریب میں بڑھتے تفاوت کے باعث غیرمتوازن ہونیوالے معاشرے کو تباہ ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر عوام کے ذہنوں میں پرورش پانے اور بڑھنے والی تلخیاں بھانپ کر بھی اہل اقتدار کی جبینوں پر خوف کی کوئی تریڑی پیدا نہیں ہوئی اور وہ عوام پر مزید مہنگائی مسلط کرنے کی پالیسیوں کی جانب ہی گامزن ہیں تو پھر ایسے حالات ہی بے رحم انقلاب کیلئے سازگار ہوا کرتے ہیں۔ ملک کی حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتیں عوام کے بڑھتے مسائل پر متفکر اور ان مسائل کے فوری حل کیلئے ہم آہنگ ہیں تو انہیں ماضی کی طرح عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی روش ترک کرنا ہوگی ورنہ مضطرب عوام ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے راستے پر چلنا شروع ہو جائیں گے تو انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن بھی ہو جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...