عہدِ رفتہ میں برصغیر کا ملک جس کی آبادی کا تناسب 80 فیصد ہندومذہب کے پیروکاروں پر مشتمل تھا، ہندوستان کے نام سے جانا جاتا تھا، پھر ہندوستان کو بڑے فخر سے ہندو انڈیا کے نام سے فروغ دینے لگے کرکٹ کے میدان میں ” چک دے انڈیا“ اور فلمی دنیا میں ”مسٹر انڈیا “ اور ہر مقام پر انڈیا نام کو بھر پور انداز میں پیش کرنے کے بعدمودی سرکار جو کہ ہندو انتہاء پسندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اب وہ ہندوستان کو ”بھارت“ کا نام دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اس حوالے سے انڈیا کی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں عدالت سے کہا کہ ” انڈیا“ نام یونانی زبان کے لفظ ” انڈک “ سے ماخوذ ہے ، لہذا اس نام کو آئین سے نکال دیا جائے ، درخواست گزار نے عدالت سے گزارش کی کہ ” عدالت حکومت کو حکم صادر کرے کہ آئین کے آرٹیکل - 1 میں ترمیم کر کے انڈیا کانام صرف ” بھارت “ رکھا جائے ، انڈین سپریم کورٹ نے اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ، اور کہا کہ اس درخواست کو حکومت کے آئین کے معاملات پر کام کرنے والی وزارت کو بھیجا جائے اور درخواست گزار حکومت کے سامنے اپنی اپیل پیش کرے۔
دنیا کے کئی ممالک اپنے ملک کا نام تبدیل کر چکے ہیں حال ہی میں ترکی نے اپنے ملک کا نام تبدیل کر کے ترکیہ رکھا ہے، ہندوستان کا نام انڈیا ہو یا بھارت اس سے کوئی فرق نہیں پڑتااور نا ہی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ذہنیت بدل سکتی ہے، ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کو منہدم کرنے کے علاوہ بھارتی ہٹلر اور انسانیت کے دشمن نریندر مودی مذہبی تعصب اور انتہاء پسندی میں اس قدر ذ ہنی مریض بن گئے ہیں کہ تاریخی شہروں کے نام بھی بدل کر ہندو ثقافت کو فروغ دینے کے غرض سے متعصبانہ اقدام اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ، لہذا تاریخی شہر ا لہٰ آباد کو ” پریاگ راج “ اور قدیم شہر حیدرآباد دکن کو ”بھاگیہ نگر“ کے ناموں میں تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں میں ہیں۔
انڈین سپریم کورٹ کا آئین میں ترمیم کی درخواست کو متعلقہ وزارت سے رجوع کا فیصلہ انڈیا میں جمہوریت کے استحکام اور اداروں میں مداخلت سے اجتناب قانون و آئین کی بالا دستی کی علامت ہے ، ہمارے ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں جسے قابلِ ستائش قرار دیا جا سکے ، جب کہ ملک کی عدالتوں میں ہزاروں کی تعداد میں کیسز التواءکا شکار ہیں ، غریب عوام سال ہا سال اپنے مقدمات کے فیصلے کے لئے زندگیاں گزاردیتے ہیں ، بعض مقدمات کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جن میں مدعی کی موت کے بعد فیصلے ہوئے ، اور عدالت مدعی کی موت سے بے خبر پائی گئی۔
انڈین عدالتیں مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہوں یا ان کا قتلِ عام کیا گیا ہو۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا ہو، ایسے معاملات پر انڈین عدالتوں کا رویہ متعصبانہ رہا ہے ، غیر حقیقی اور دلیل سے عاری معاملات کو انڈیا کی عدالتیں سماعت کیلئے منظور کر کے مسلمانوں سے تعصب برتنے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں جیسا کہ بنارس کی گیانوابی مسجد کی جگہ کو یہ کہہ کر متنازع بنایا گیا کہ مسجد کے وضو خانے سے ملنے والی چیز دیوتا شیو کی علامت ہے ، انتہاءپسند ہندوﺅں نے اس مفروضہ کی بنا پر بنارس کی عدالت سے رجوع کر لیا اور بنارس کی عدالت نے ہندوﺅں کے اس دلیل سے عاری دعویٰ کوسماعت کیلئے منظور کر لیا۔ اسکے بر عکس ملک کے آئین میں ترمیم کے لئے درخواست کو خارج کر کے اس آئینی معاملے میں مداخلت کرنے سے صاف انکار دوسری جمہوریت پسند ریاستوں کےلئے قابل تقلید عمل ہے۔
انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت اور انتہاءپسندی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ، انتہاءد مودی نے مسلمانوں کا گجرات میں جو قتل عام کروایا تھا ، امریکہ نے اس اقدام پر مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کئے رکھی ، لیکن انڈیا کا وزیر اعظم بننے کے بعد بھی مودی کے مسلمانوں سے بغض اور نفرت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی ثقافت، مساجد، عمارتوں سڑکوں اور یادگاروں کے نام بھی تبدیل کر دیئے ، امریکی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ ” انڈیا نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہی انڈیا میں مسلمانوں پر عرصہءحیات تنگ کر دیا گیا ہے ، ”گاﺅ رکشا“ اور ” لو جہاد “ کے نام پر مسلمانوں کو قتل کر دینا ہندو توا کےلئے معمولی عمل ہے ، ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے انڈیا میں 2002ءسے نسل کشی کے حوالے سے اپنے دیئے ہوئے انتباہ کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ ” جب گجرات میں قتل عام ہوا تھا اور ہزاروں مسلمان جاں بحق ہوئے تھے ، اس وقت نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے ،لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا درحقیقت کئی ثبوت ہیں کہ مودی نے قتل عام کی حو صلہ افزائی کی تھی ، اب بحیثیت وزیر ِ اعظم مودی اپنی سیاست کو وسیع کرنے کیلئے مسلمان مخالف اسلام فوبیا کی بیان بازی کر رہا ہے ،ایک طرف مودی نے 2019 ئ میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور دوسری طرف شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کر کے مقبوضہ کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقہ بنانے کا جواز پیدا کیا“۔
ہنوستان انڈیا سے بھارت بننے تک اپنی سیکولر حیثیت کو ختم کر کے دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعویدار بھی نہیں رہا ، اسکے باوجود اسلامو فوبیا میں مبتلا ممالک ہندوستان کو ایشیاءمیں روس اور چین کے مقابلے میں لانے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں ، لیکن ہندوستان کا انڈیا سے بھارت کے نام کی شناخت کرانے سے اقلیتوں پر مظالم کی تاریخ کو نہیں مٹا سکتا۔