ایس انعام الٰہی جمیل

ایس انعام الٰہی جمیل کا نام نوک قلم پر آیا ہے تو ایک ایسی شخصیت کا سراپا سامنے آگیا جن کے انتقال پر شائع ہونے والی خبروں میں ان کاتعارف اگرچہ کاغذ کے ایک ممتاز تاجر کے طور پر کرایا گیا ہے مگر وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے پاکستان کی اخباری صنعت کی ترقی اور فروغ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر ”نوائے وقت“ کو حمید نظامی مرحوم کی بیگم محمودہ نظامی اور ان کے صاحبزادوں شعیب نظامی اور عارف نظامی کی ملکیت سے نکال کر دوبارہ حمید نظامی کے چھوٹے بھائی مجید نظامی کے سپرد کرنے کے تاریخی واقعہ میں ان کاخاموش (ان معنوں میں کہ اس بات کا کوئی پروپیگنڈہ نہیں ہوا) کردار ناقابل فراموش ہے۔ ایس انعام الٰہی جمیل محض کاغذ کے ایک تاجر ہی نہیں نہایت سلجھے ہوئے کالم نگار اور دانش ور بھی تھے اور قرآن مجید کا مطالعہ اور قرآن حکیم کی تعلیمات پر فکرو تدبر انہیں بہت محبوب رہا۔ وہ ان اہل فکر و نظر میں تھے جن کا دل پاکستان کی محبت اور الفت سے سرشار تھااور ان کی گراں قدر نگارشات میں اس جذبہ کی خوب خوب عکاسی ہوتی تھی۔
 جمیل صاحب سے میرا تعارف 1974-75ءمیں ہوا جب تجارت سات روزہ سے روزنامہ ہوا اور اسے اخباری کاغذ کا بیس یا پچیس رم کا پہلا پرمٹ ملا، ا±س زمانے میں وزارت اطلاعات و نشریات کا ادارہ تصدیق اشاعت (اے بی سی) اخبارات کی نیوز پرنٹ کے پرمٹ جاری کرتا تھا اور جمیل صاحب کے والد حاجی ایس عبداللطیف صاحب کی فرم ”ایس عبداللطیف محمد اکبر اینڈ کمپنی“ جو پاکستان میں اخباری کاغذ کی سب سے بڑی فرم تھی ، کو پیش کئے جاتے تھے اور وہ طے شدہ قیمت پر حکومت کی مقرر کردہ مقدار کے مطابق اخبارات کو کاغذ مہیا کرتے تھے۔ انعام الٰہی جمیل صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز پیر محل میں کپاس کے کاروبار سے کیاتھا مگر انکے والد گرامی نے اپنے بڑھتے ہوئے کاروبار کی ضرورت کے پیش نظر انہیں لاہور میں گنپت روڈ پر اپنے دفتر کا نظم و نسق سونپ دیا۔ اس دفتر میں ان کے معاون سجاد ہاشمی صاحب تھے جو لاہور کے ادبی و صحافتی حلقوں میں ہر دلعزیز تھے۔ خاص طور پر ترقی پسند ادیب، صحافی اور شاعر ان کے دفتر میں بہت آتے جاتے تھے ان اصحاب میں احمد بشیر صاحب کو اکثر میں نے وہاں موجود پایا لیکن انعام الٰہی جمیل ابتداءسے ہی صاف ستھرے نظریات کے مالک تھے اور ان کی عبادت میں ہی بہت خشوع و خضوع ہوتا تھا۔ 
میں جب نماز مغرب کے بعد ان سے ملاقات کے لئے جاتا تو مجھے معلوم ہوتا کہ وہ گنپت روڈ کی مسجد میں نماز ادا کرنے گئے ہوئے ہیں، مجھے مسجد سے دفتر میں واپسی کے لئے کافی انتظار کرنا پڑتا کیونکہ وہ نماز کے بعد اوراد و وظائف میں بہت وقت صرف کرتے۔ دوسرے اخبارات کی طرح جمیل صاحب ندائے ملت، نوائے وقت کو بھی نیوز پرنٹ مہیا کرتے تھے۔ انہیں اس امر کا بہت قلق رہا کہ مجید نظامی کے علیحدہ ہو جانے اور ندائے ملت نکالنے کے بعد دونوں اخبارات کو مشکلات کا سامنا تھا، ان کی خواہش تھی کہ نوائے وقت دوبارہ مجید نظامی کے پاس آجائے، ان کی کوششوں سے23 مارچ 1970ءو ندائے ملت اور نوائے وقت کا انضمام عمل میں آیا اور نوائے وقت، نوائے وقت پبلی کیشنز لمیٹڈ کے ہاتھوں سے نکل کر ندائے ملت پبلی کیشنز لمیٹڈ کے پاس آگیا جس کے ڈائریکٹروں میں جناب مجید نظامی، محترمہ ریحانہ مجید نظامی اور ایس انعام الٰہی جمیل شامل تھے۔ نوائے وقت کا کراچی سے ایڈیشن شائع کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں بھی وہ پیش پیش رہے او ر کافی عرصہ نوائے وقت کراچی کے انتظامی امور کی وہی دیکھ بھال کرتے رہے مگر بعدازاں انہوں نے ان ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرلی۔
دراصل جمیل صاحب کی زندگی میں ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ آیا جس نے ان کو دنیوی ترغیبات سے دور کر دیا، بند روڈ پر اخباری کاغذ کے ان کے گوداموں کو ایک رات زبردست آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور لاکھوں روپے مالیت کاکاغذ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ جمیل صاحب نے اس موقع پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ اپنے کاروبار کو سود سے پاک رکھیں گے اور بنکوں سے سود پر قرض لے کر کاغذ درآمد کرنے سے احتراز کریں گے، اسی طرح انہوں نے اخباری کاغذ کی خریدوفروخت کے کاروبار سے بھی ہاتھ اٹھالئے اور اپنے کاروبار کو کاغذ کی مختلف اقسام کی INDENTING تک محدود کرلیا اور اپنی عمر کے آخری ماہ و سال میں یہ ذمہ داریاں بھی انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے فیصل کو سونپ دیں اور خود کو قرآن مجید کے مطالعہ اور اس پر غوروفکر کے لئے وقف کر دیا، جمیل صاحب بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص تھے۔ میں نے کراچی میں ایک سفر کے دوران انور ساجدی کے اخبار روزنامہ ”انتخاب“ میں ان کا کالم پڑھا اور پھر میں نے انہیں روزنامہ جرات کے لئے کالم لکھنے کی دعوت دی جو انہوں نے خوش دلی سے قبول کرلی اور سالہا سال سے وہ جرات میں کالم لکھ رہے تھے، ان کے کالم پر ایک نظر میں ڈالتا تھا اور اس کی نوک پلک درست کردیتا تھا اور میری غیر حاضری میں میرے رفیق کار نذیر شاہد یہ فریضہ انجام دیتے تھے۔ ان کی علالت کے بعد یہ فریضہ ہمارے ایک اور ساتھی اصغر علی کھوکھر نے سنبھال لیا جنہوں نے اغلباً ماہ اپریل میں میری توجہ اس امر پر دلائی کہ جمیل صاحب کا کالم چند روز سے موصول نہیں ہورہا۔ میں نے کراچی میں ان کے دفتر کے فون پر رابطہ کی کوشش کی مگر ناکام رہا، ان کے بیٹے سے موبائل پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ کمرکے درد کے باعث بستر پر ہیں اور دفتر نہیں جارہے۔ فیصل نے جو اتفاق سے اس وقت ان کے سرہانے موجود تھا ان سے میری بات کرائی، میں چونکہ گزشتہ چودہ سال سے ریڑھ کی ہڈی کے عارضہ میں مبتلا ہوں میں نے جمیل صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ خاص برانڈ کا تکیہ اور میٹرس استعمال کریں، میں نے متعلقہ فرم سے رابطہ کرکے ان کی مصنوعات کی تصاویر بھی انہیں بھجوائیں مگر ان کا مرض بڑھتا چلا گیا اور ان کے پھیپھڑے متاثر ہوگئے۔ ایک روز ان کی خیریت پوچھنے کے لئے فیصل کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے اور جمیل صاحب کی بہنیں اور بیٹیاں ان کی عیادت کے لئے ان کے سرہانے موجود ہیں۔ فیصل نے یہ بھی بتایا کہ وہ اب انہیں روزانہ علاج کی غرض سے آغا خان ہسپتال لے جاتے اور واپس گھر لاتے ہیں، افسوس کہ ان کی یہ علالت جان لیوا ثابت ہوئی او ر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، وہ میرے نہایت مہربان اور مشفق بھائی تھے مجھے ان کی دعائیں ہمیشہ حاصل رہیں۔ میرے ساتھ عمرہ کے سفر میں بعض اوقات یہ عجیب اتفاق ہوتا رہا کہ میں کسی اور شخص کے لئے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا اور میرے لبوں پر نام انعام الٰہی جمیل کا آجاتا۔ جب میں انہیں اپنی اس کیفیت سے آگاہ کرتا تو وہ بہت خوش ہوتے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ادا کرتے اور مجھے اپنی دعا?ں سے نوازتے۔ یہ سطور بھی اس وقت قلمبند کررہا ہوں جب عمرہ کے سفر کے لئے پابہ رکاب ہوں۔ میرا ارادہ ہے کہ میں ان کے لئے طواف کروں اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے بارگاہ الٰہی میں گڑ گڑا کر التجائیں کروں، اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر شبنم افشانی کرے، آمین ثم آمین۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...