Azhar Saleem Majooka
ہے خبر گرم
اظہر سلیم مجوکہ
ایک خبر کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے تعلیم کا شعبہ ایک اہم شعبہ ہوتا ہے اور کسی بھی ریاست کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے بدقسمتی سے ملک کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی ہمارا ہاتھ کافی تنگ رہا ہے اور جب سے سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں پرائیویٹ سکول اور کالج سسٹم مقابل آیا ہے ہمارے سرکاری تعلیمی ادارو کے نتائج بھی برائے نام رہ گئے ہیں ایک عرصے سے ہمارے ہاں تعلیمی نصاب کے حوالے سے بھی بحث و مباحثہ جاری ہے کہ ہمارا نظام تعلیم محض کلرک پیدا کر رہا ہے اس کے مقابلے میں جب ہم پرائیویٹ تعلیمی سسٹم کو دیکھتے ہیں تو وہ پوش علاقوں کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں بھی خورد روجھاڑیوں کی طرح جگہ جگہ موجود ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں جو سٹاف رکھا جاتا ہے ان کو تنخواہیں بھی برائے نام دی جاتی ہیں اور طلبہ و طالبات سے بھاری فیسیں وصول کرنے کے باوجود موسم کے مطابق سہولیات بھی مہیا نہیں کی جاتیں جبکہ ایک معقول فیس کے علاوہ فن فیر کلر ڈے سپورٹس گالا اور دوسرے رنگا رنگ پروگرام کی مد میں بھی والدین سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں یونیفارم اور کورس تک سکولوں سے من مانی قیمتوں پر مہیا کیا جاتا ہے اس کے بعد بچوں کی ٹیوشن اور ٹیسٹوں کے لئے بنائی گئی اکیڈمی کی فیسیں الگ ہیں اور سب سے بڑھ کے یہ کہ اب والدین نے بچوں کے امتحانی نمبروں کی دوڑ میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے 1100 میں سے 1100 نمبر بھی آنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ ایک وقت تھا کہ نمبروں کی کھینچا تانی کے حصول میں طلبہ اور ان کے والدین پریشان رہتے تھے طاب علم رات دن پڑھتے دکھائی دیتے تھے اس نمبر گیم میں والدین کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں پیپروں کے پیچھے کہاں تک جانا پڑتا ہے اور کیا کچھ ہوتا ہے یہ ایک الگ کہانی ہے سر دست یہی ہے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام ہماری ضروریات پوری کر رہا ہے ہم دوسرے شعبوں کی نسبت بجٹ میں تعلیم اور صحت میں اتنے فنڈز مختںص نہیں کرتے جتنے ہمیں دونوں شعبوں میں کرنے چاہیں یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ان دونوں شعبوں کا حال پتلا ہی رہا ہے اب جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی امرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے تو دیکھتے ہیں اس کے کیا دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں اگرچہ ابھی تو مالیاتی ایمرجنسی کے بھی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آ سکے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نظر آتا ہے اس سے بڑھ کر ہمارے تعلیمی نظام میں دلچسپی کا عنصر کیا ہوگا کہ ایک عرصے سے ہمارے ملک کی جامعات میں وائس چانسلر کا اہم عہدہ خالی پڑا ہوا ہے اب خبر آئی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے ان 25 جامعات کے وائس چانسلروں کے انٹرویو لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے کی پہلی کھیپ کو وزیر اعلی سیکریٹریٹ میں انٹرویو کے لئے بلایا بھی ہےابھی یہ معلوم نہیں کہ وزیراعلی یا سرچ کمیٹی نے اس حوالے سے کیا فیصلہ کیا ہے اگرچہ ہم ایک عرصہ سے سنتے ائے ہیں کہ گورنر یونیورسٹی کا چانسلر ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ انٹرویو میں گورنر کو بھی مدعو کیا گیا ہو ورنہ تو اب گورنر کا عہدہ ایک علامتی عہدہ ہی رہ گیا ہے کہ صدر اور گورنر حکومت کے جاری کئے گئے ارڈیننس اور دیگر قوانین پر دستخط کرنے کے لیے ہی کافی سمجھے جاتے ہیں یا تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات میں ڈگریاں اور اعزازات تقسیم کرنے کے لیے انہیں خصوصی دعوت دی جاتی ہے جب سے اہل عہدوں پر سیاسی یا نظریہ ضرورت کے تحت تقرریاں کی جا رہی ہیں ہمارے ہاں تعلیم کا معیار ویسے بھی گر گیا ہے ہمارے ملک کا سب سے بڑا بیوروکریسی بیروکریسی کا ادارہ جس میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے والے آتے ہیں اس کی صورتحال بھی کوئی تسلی بخش نظر نہیں آتی کہ گزشتہ کئی سالوں سے صرف ایک فیصد لوگ اس امتحان میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ملک کے بہت سے اداروں کی باگ دوڑ کس طرح کن افراد کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے اب جب کہ ملک کی 25 جامعات کے وائس چانسلرز کے مستقل تقرر کے لیے انٹرویو کا سلسلہ جاری ہے تو ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اب اقربا پروری اور سیاسی تعلقات کی بجائے مستقل بنیادوں پر جامعات کے وائس چانسلرز کا تقرر کیا جائے گا جو اس عہدے کے اھل ہوں گے اور یہ تقرر خالص میرٹ پہ ہوگا کیونکہ ایڈہاک ازم کی وجہ سے اور مستقل وائس چانسلرز نہ ہونے کی وجہ سے ہماری اہم جامعات کی ترقی میں بھی خاصہ فرق پڑا ہے اور بہت سے تعلیمی مسائل التوا کا شکار ہیں ہماری بہت سی جامعات میں سیکیورٹی کے مسائل کے ساتھ ساتھ منشیات کا بے جا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے جبکہ جامعات کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ و طالبات میں آ ئس شیشہ اور اس طرح کی دیگر منشیات اب عام ہوتی نظر آ رہی ہیں حکومت جہاں پہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے جا رہی ہے وہاں ان معاملات کی چھان بین کرتے ہوئے اس کا تدارک بھی ضروری ہے ملتان کی بہاالدین زکریا یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایک عرصے سے مستقل وائس چانسلرز نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ ایڈہاک ازم کی وجہ سے مستقل تقر ری نہ ہونے کی وجہ سے ان جامعات کی رینکنگ کا گراف بھی نیچے آ یا ہے اور کوئی یونیورسٹی بین الاقوامی معیار کا نمونہ پیش نہیں کر سکی ملتان کی بہاالدین زکریا رح یونیورسٹی ایک قدیم درسگاہ ہے جس میں بہت سے نامور اور قابل وائس چانسلرز اس درسگاہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر چکے ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر خیرات ابن رسا ڈاکٹر محمد نذیر رومانی ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودہری ڈاکٹر نصیر احمد خان ڈاکٹر محمد ظفر آللہ اور ڈاکٹر حیات اعوان کی خدمات قابل ذکر ہیں جبکہ ڈاکٹر طارق انصاری اور ڈاکٹر محمد علی شاہ نے بھی قائم مقام وائس جانسلرز کی حثیت سے اپنی ذمہ داریاں با احسن نبھائی ہیں اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس یونیورسٹی میں کسی تجربہ کار وائس چانسلر کا میرٹ پہ تقرر کیا جائے تاکہ یہ عظیم درسگاہ جو جنوبی پنجاب کی کہ ایک ایم تاریخی اور قدیم تعلیمی درسگاہ ہے وہ اپنا تشخص برقرار رک سکے اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور بھی ایک عرصے سے مسائل کا شکار ہے اور وہاں پر کام کرنے والے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو مقامی سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے ہمیں توقع ہے کہ اب جب کہ موجودہ حکومت میرٹ کی بات کر رہی ہے اور یونیورسٹیوں میں میرٹ پر وائس چانسلرز کا مستقبل انتخاب ہونے جا رہا ہے تو ملتان اور بہاولپور کی یونیورسٹیوں میں قابل اور محنتی وائس چانسلرز کا تقرر کیا جائے گا ڈاکٹر اطہر محبوب نے اسلامیہ یونیورسٹی کے تشخص کو نمایاں کرنے کے ساتھ طلبہ و طالبات کی تعداد فیکلٹی اور ٹرانسپورٹ میں اضافے کے ساتھ یونیورسٹی کا گراف اونچا کرنے کی جو کاوشیں کی ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں ڈاکٹر جام سجاد کے بقول ڈاکٹر اطہر محبوب اور اسلامیہ یونیورسٹی اب لازم و ملزوم ہیں حال ہی میں شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی میں ڈاکٹر یوسف خشک کا وائس چانسلر کی حیثیت سے انتخاب کیا گیا ہے ڈاکٹر یوسف خشک پہلے بھی اسی یونیورسٹی سے وابستہ رہے ہیں اور بعد میں انہیں ادیبوں کی فلاح و بہبود کے اہم ادارے اکیڈمی آف لیٹرز کا چیئرمین بنایا گیا تھا اپنی مدت ملازمت کے دوران انہوں نے اکیڈمی اف لیٹر کو نہ صرف فعال رکھا بلکہ انہوں نے مختلف قومی اور علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے اپنا اہم کردار ادا کیا مختلف زبانوں میں مختلف کتابوں کے تراجم کرائے آ ن لائن سیمینارز اور قومی کانفرنسوں کا انعقاد کیا اور مختلف تقاریب کے ذریعے اھل قلم سے رابطہ استوار رکھا انہیں کے دور میں اکادمی ادبیات اسلام آ باد میں ایوان اعزاز بھی قائم ہوا اسی طرح توقع کی جانی چاہیے کہ ملک بھر کی 25 جامعات میں مستقل بنیادوں پر وائس چانسلرز کا تقرر کرتے ہوئے تمام خصوصیات کو مدنظر رکھا جائے گا اس سلسلے میں تعلم اور ادب کے میدان کے نمایاں تھنک ٹینک کی مشاورت اور معاونت بھی حاصل کی جائے اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں قائم یونیورسٹیوں میں کسی قسم کے سیاسی دبا سے اور مصلحتوں سے بالاتر ہو کر غیر جانبدار اور قابل وائس چانسلرز کا تقرر کیا جائے ان تعلیمی عہدوں کو ہر قسم کی سفارش تعصب مخصوص طبقات کے مفادات اور دباو سے پاک اور آذاد رکھا جائے کہ حکومت اگر ان جامعات کو اچھے محنتی اور قابل وائس جانسلرز دے گی تو یہ وائس چانسلرز ملک کو اچھا تعلیمی ماحول اور طالب علموں کو اچھی تعلم دینے کا باعث بنیں گے۔