پس آئینہ
خالدہ نازش
برطانیہ کے ایک کیئر ہوم میں اینی بروکن نامی خاتون سے جن کی عمر 104 سال ہے ، جب پوچھا گیا کہ آپ کی کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو ؟ تو ان کا کہنا تھا ?? میری اتنی عمر ہو گئی ہے اور میں نے آج تک کوئی قانون نہیں توڑا لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں جیل جاو¿ں ،، 104 سالہ خاتون جن کی اب دنیا سے جانے کی عمر ہے اور اتنی عمر میں انسان بتاتا ہے کہ میں زندگی گزار چکا ہوں اور اب میری دعا ہے کہ میرا اگلہ جہاں اچھا ہو - مگر ان خاتون کا کہنا تھا کہ میری ابھی بھی خواہش ہے کہ میں جیل جاو¿ں - بہت عجیب خواہش ہے جسے پورا کرنا مشکل نہیں اور بہت آسان بھی نہیں - آسان اس لیے نہیں کہ یہ محترمہ کوئی قانون بھی نہیں توڑنا چاہتی ہیں اور جیل بھی جانا چاہتی ہیں - جیل جانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو ہاتھ پاو¿ں مارنے پڑیں گے- کوئی خواہش بھی آسانی سے پوری نہیں ہو جاتی بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے ، خواہ وہ جائز طریقے سے پوری کرنی پڑے یا ناجائز طریقے سے - مگر یہ ایک ایسی خواہش ہے جو جائز طریقے سے پوری نہیں ہو سکے گی - کوئی نہ کوئی جرم تو ضرور کرنا پڑے گا - اگر سوچا جائے تو ہر جرم دانستہ ہوتا ہے اور ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی خواہش ضرور ہوتی ہے - خواہشات سے فراغت کے لمحات بھی چرانے پڑتے ہیں - وگرنہ آج خواہشوں کے انبار تلے دبے انسان کو کسی جا سکون نہیں ہے - یہ خواہش ہی تھی جو ابلیس کو شیطان بناتی ہے - خواہش ہی فرعون کو زمینی خدا بنا دیتی ہے ، خواہش ہی اسکندریہ کو مغرب سے مشرق تک زمین کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے لے جاتی ہے ، خواہش ہی خوابوں کو تعبیر میں ڈھالنا سکھاتی ہے ، خواہش ہی قدموں کو منزل کی اوڑ بڑھاتی ہے - ہر تحلیق ہر ایجاد کے پیچھے ضرور ایک خواہش ہوئی ہو گی - خواہشوں کے بے لگام گھوڑے پر سوار انسان ان کو پورا کرنے کے لئے جائز وناجائز کی تمیز بھول جاتا ہے - مگر ان محترمہ کا کہنا تھا کہ وہ بہت ڈسیپلن پسند ہیں اور ایک ڈسیپلنڈ لائف گزارنا اپنی عزت کرنے کا بہترین طریقہ ہے - اب ایسی خاتون کے لئے اپنی اس خواہش کو پورا کرنا بہت مشکل کام ہے کہ کسی قسم کے جرم یا قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب بھی نہ کیا جائے اور جیل یاترا بھی ہو جائے - اگر تو وہ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں اپنے ضمیر کو مردہ کر کے کوئی چھوٹا موٹا جرم کرنا پڑے گا جس کے لئے انہیں کچھ دنوں کی سزا کاٹنا پڑے ، اور دنیا سے جانے سے پہلے ان کی یہ خواہش بھی پوری ہو جائے - اور اگر وہ کوئی جرم کیے بغیر ہی جیل جانا چاہتی ہیں ، تو میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ پاکستان آ جائیں - یوں تو جرائم کی تشریح ہر ملک میں ایک جیسی ہوتی ہے - مذہبی اور اخلاقی لحاظ سے کچھ اختلافات ہوتے ہیں - اسلام بہت سے ایسے کاموں کی اجازت نہیں دیتا جو غیر مسلم ممالک میں جائز سمجھے جاتے ہیں اور ان پر کوئی پابندی نہیں ہے - جیسے اسلام میں شراب نوشی حرام ہے اور اس کی سزا بھی مقرر ہے جبکہ غیر مسلم ممالک میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے - اور بھی سینکڑوں مثالیں ہیں - چونکہ پاکستان بھی ایک اسلامی ملک ہے مگر اب یہاں بہت تیزی سے قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے - چھوٹے چھوٹے ایسے کام جن کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک اسلامی اور جمہوری ملک میں کیسے غیر قانونی ہو سکتے ہیں - اسلام جو انسانی احترام کا درس بھی دیتا ہے اس کو فراموش کر دیا گیا ہے اور اس so called جمہوری ملک میں ایسے کاموں کو جرم قرار دے کر جیلیں بھری جا رہی ہیں - دو اڑھائی سال سے یہ کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے ایک سیاسی پارٹی زیر عتاب ہے جس کا نام لینے ، جس کو جلسہ کرنے اور جس کا جھنڈا اٹھانے پر پابندی ہے اور ان کاموں کو جرم قرار دے دیا گیا ہے - ایسا کرنے والوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے ، اس لئے ان محترمہ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ پاکستان تشریف لے آئیں آپ کو کوئی ایسا جرم بھی نہیں کرنا پڑے گا جس پر آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کرے ، صرف اس پارٹی کا جھنڈا لے کر باہر نکلنا پڑے گا - آپ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے گا - یوں آپ کی جیل یاترا کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور ضمیر بھی مطمئن رہے گا کہ کوئی قانون نہیں توڑا - جب بے گناہ لوگوں کے ساتھ اس قسم کی روش اختیار کی جائے گی تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم خود مجرم تیار کر رہے ہیں ، کیونکہ جب جرم کے بغیر لوگوں کو سزائیں ملنے لگیں ، ان پر دہشت گردی کے مقدمات چلنے لگیں تو ایسے ناروا سلوک پر لوگوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جو اصل میں جرائم کی طرف راغب کرتے ہیں، کیونکہ جو ایک دفعہ جیل کا منہ دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کے اندر سے جیل کا خوف ختم ہو جاتا ہے اور پھر ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ بے گناہ ہو کر اگر سزا کاٹ لی ہے تو کیوں نہ کوئی جرم کر کے سزا کاٹی جائے - ایسے بے گناہ لوگ کچے کے ڈاکوو¿ں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں - جو بڑے بڑے جرائم کر کے بھی نہیں پکڑے جاتے - پچھلے دنوں راکٹ لانچرز سے لیس 131 کچے کے ڈاکوو¿ں نے پنجاب پولیس پر حملہ کر دیا - 12 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا جبکہ احمد نواز نامی ایک پولیس اہلکار کو اغوا کر کے ساتھ لے گے - اگلے روز شوشل میڈیا پر ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ ہاتھ جوڑ کر وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سے مدد مانگ رہا تھا کہ ڈاکوو¿ں کے مطالبات مان کر مجھے ان سے رہا کرایا جائے - کچے کے ڈاکو اپنے یوٹیوب چینل پر لوگوں سے سبسکرائب کی درخواست بھی کر رہے ہیں اور اپنے پاس موجود جدید اسلحے کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ یہ اسلحہ انہیں پولیس کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے - تاہم 12 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور ان پر راکٹ لانچرز حملے نے کچے کے ڈاکو گینگز کی عسکری صلاحیت کے بارے میں نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ انہیں اتنا پکہ کس نے بنا دیا ہے - کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا تاہم مجرموں کے جرائم کی طرف آنے کے پیچھے کوئی کہانی یا وجہ ضرور ہوتی ہے جس میں ایک بڑی وجہ انتقام اور بدلے کی آگ بھی ہوتی ہے - آج کل صوبہ بلوچستان بہت زیادہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے اور جن لوگوں کو دہشت گرد اور خارجی کہا جاتا ہے ان کی کہانیاں سن کر پتا چلتا ہے کہ کسی حد تک ان لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں - جیسے ان لوگوں کو اس معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا ، اور ان کی محرومیاں اور ان کے ساتھ ناروا سلوک خاص طور پر جب ان کے گھر کے افراد کو شک کی بنیاد پر میسنگ پرسن بنا دیا جاتا اور انہیں کئی کئی سال اپنے لوگوں کی بازیابی کے لیے دوہایاں دیتے اور مطالبہ کرتے گزر جاتے ہیں کہ انہیں سامنے لایا جائے اور ان پر مقدمہ چلا کر اگر وہ قصور وار ہیں تو سزا دی جائے اور جب ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر انتقام اور بدلے کی آگ انہیں ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے اور وہ اسلحہ اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں - جنہیں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے خارجی کہا جاتا ہے - ایسی بہت سی کہانیاں انہیں دہشت گردوں کی زبانی سننے میں آتی ہیں - کسی بھی جرم کے پیچھے خواہ کوئی بھی کہانی ہو قانون کی نظر میں اگر وہ جرم ہے تو پھر مجرموں کو سزا کاٹنی پڑتی ہے - اگر سوچا جائے تو ہم سب قانونی طور پر اگرچہ کسی جرم کے مرتکب نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی ہم سب مجرم ہوتے ہیں - اور ہم سب نے کوئی نہ کوئی ایسا جرم ضرور کیا ہوتا ہے جس کی سزا ہمیں ملک کی عدالتوں نے سنائی ہوتی ہے اور نہ ہی ملک کی جیل میں کاٹنی پڑتی ہے بلکہ یہ سزا ضمیر کی عدالت سناتی ہے اور اپنی اندر کی جیل میں کاٹنی پڑتی ہے- یہ اخلاقی جرائم ہوتے ہیں اور ان کی سزا کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی جب تک انسان زندہ رہتا ہے اندر کی قید سے رہائی نہیں پاتا - ایسے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے لیے ہم خود کو مجرم سمجھ رہے ہوتے ہیں - مثلاً اگر ہم نے کسی کا دل دکھایا ہوتا ہے ، کسی کی حق تلفی کی ہوتی ہے ، والدین کی نافرمانی کی ہوتی ہے ، کسی کو دھوکا دے کر فرائص سے روگردانی کی ہوتی ہے - ایسے بے شمار اخلاقی جرائم ہیں جو ہم سے سر زد ہوتے رہتے ہیں - اگر ہمارا ضمیر زندہ ہے تو ہم ایسے جرائم کے لیے اس کی پکڑ میں آ جاتے ہیں - یہ ایک ایسا احساس جرم ہوتا ہے اگر جاگ جائے تو پھر سونے نہیں دیتا -