گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قارئین! گذشتہ پچاس سالوں میں شاید ہی کوئی ایسا موقع آیا ہو ،ملکی حالات اس نہج پر پہنچے ہوں کہ ہر طرف ایک افراتفری اور ہیجانی کیفیت اور دوسری طرف پاکستان کے بیرونی حالات بھی کوئی سازگار نہیں ہیں۔خاص طور پر پچھلے ڈھائی سال سے جاری یوکرائن،رشیا جنگ اور 7اکتوبر 2023ءسے جاری حماس اور اسرائیل جنگ،ان دونوں جنگوں نے نہ صرف عالمی امن کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں مہنگائی اور کسادبازاری کو بھی آسمان کی اونچائی تک پہنچادیا ہے۔ خاص طور پر یوکرائن پوری دنیا کو گندم اور ضروریات زندگی کی دیگر چیزیں سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اس جنگ کی وجہ سے اس کی برآمدات میں 95فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ سے خاص طو رپر کھانے پینے اور گروسری کا سامان مہنگا ہو چکا ہے،یہ چیزیں بنیادی انسانی ضروریات میں شامل ہیں جب کہ نیٹو کے بیس ممالک اور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں جن میں روس ،چائنہ اور امریکہ بھی شامل ہے وہ اس کی زد میں آ کر اپنے اپنے ملکوں کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔اسلحے کی خریدوفروخت بھی ایک ایسی دوڑ شروع ہو چکی ہے کہ جس کے اختتام کا کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ اور بات صرف یہاں تک نہیں بلکہ اب رو س اور امریکہ نے اپنے اپنے میزائلوں کو نیوکلیئر وار ہیڈ لگا دیئے ہیں۔ان جنگوں کے جو بھی اسباب تھے جو بھی وجوہات تھیں لیکن ان جنگوں کو روکا جا سکتا تھا اگر عالمی برادری ایسا چاہتی تو۔بلکہ عالمی برادری کی ہم بات بھی نہ کریں صرف اور صرف یہ جائزہ لے لیں کہ اگر امریکہ میں بائیڈن کی بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہوتی تو یہ جنگیں نہیں ہونی تھیں۔فلسطین اسرائیل اور یوکرین روس جنگوں نے دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ اگر امریکی صدر ہوتے ہیں تو دونوں جنگیں نہ ہوتیں۔ٹرمپ کی پولیسیوں ان کی سیاست ٹرمپ کی شخصیت پر آپ دو رائے رکھ سکتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کے دور میں امریکہ نے کسی ملک میں مداخلت نہیں کی۔کسی ملک کے ساتھ ان کی جنگ نہیں ہوئی۔ٹرمپ کی طرف سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ اگر میں صدر ہوتا تو یہ دونوں جنگیں نہ ہوتیں۔ان کی طرف سے یہ بالکل درست کہا گیا ہے بہرحال ان جنگوں کی وجہ سے آج دنیا بقا اور تباہی کے دو راہے پر کھڑی ہے۔ٹرمپ اگر الیکشن جیت جاتے ہیں تو پھر تباہی سے دنیا شاید بچ جائے۔اگر جو بائیڈن کی جان نشین کملہ ہیرس امریکی صدر بن جاتی ہے تو دنیا کے امن کی رہی سہی تباہی کی کسر بھی نکل جائے گی۔اور دنیا جہنم زار کا نقشہ پیش کرتی نظر آئے گی
گذشتہ روز روس کے صدر پوٹن نے امریکہ کے جرمنی کے اندر اپنے میزائل نصب کرنے کے بعد اپنی فورسز کو حکم دے دیا ہے کہ وہ بین الاعظمی میزائلوں کو نیوکلیئر وارڈ ہیڈ سے منسلک کر دیں۔ اس طرح واشنگٹن ،نیویارک، لندن ،پیرس ،وارسا،برمنگھم،فراینکفرٹ سمیت یورپ کے 32بڑے شہروں کو ہدف اور نشانہ بنا کر نصب کر دیا گیا ہے۔ اور رشین فوج کو یہ آرڈر دے دیا گیا ہے کہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں اس نیوکلیئر میزائل سسٹم پر تعینات روسی افسران دنیا کے ان 32شہروں کو چار منٹ سے لے کر سات منٹ تک تباہ کر سکتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس ملین یعنی پانچ کروڑ انسانی جانوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔اور یقینا امریکہ ،فرانس اورانگلینڈ بھی جوابی وارروس کے اتحادی ممالک پر کریں گے۔جس سے پانچ سے دس کروڑ مزید انسانی جانوں کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔جو لوگ جو بائیڈن کو اقتدار میں لائے ان سے پھر کہنا تو بنتا ہے کہ ہور چوپو۔۔۔
قارئین!دوسری طرف سے صیہونی اور یہودی قوتیں ایک لیماٹی طاقت کے زیر اثر ایک صدیوں پرانا خواب تشکیل دے چکی ہیں کہ دنیا کی آبادی کو کم کرکے آدھے سے بھی نیچے کی سطح پر لایا جائے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی ساڑھے سات ارب آبادی صرف ساڑھے تین ارب رہ جائے گی۔اور اس طرح کارپوریٹ قوتیں اور دنیا کے مالیاتی ادارے جو کہ نوے فیصد صیہونی قوتوں کی ملکیت ہیں وہ اپنی مصنوعات اور پروڈکشن کو دنیا میں پھر سے بیچ کر دنیا کے وسائل پر قابض ہو سکیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے اس ناپاک منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیے اسرائیل کو پورے فلسطین اور میڈل ایسٹ پر قبضہ جمانا ہوگا اور اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے اسرائیل نے غزہ، ویسٹ بینک اور پورے فلسطین کے علاوہ میڈل ایسٹ پر بھی قبضے کی خواہش ہے۔اس منصوبے کہ آگے اسی صورت میں بند باندھا جا سکتا ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو جائیں اور یہ ناممکن نہیں ہے پہلے ایسا ہو چکا ہے جب تین ممالک نے امریکہ کا تیل بند کر دیا تھا اور یہ بھی دنیا نے دیکھا کہ کس طرح تین ممالک نے مل کر اسرائیل کو شکست سے دو چار کیا تھا۔یہ 73 کی وار تھی جب اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹتا ہوا نظر آ رہا تھا کہ امریکہ مدد کو پہنچ گیا۔اس جنگ کے بعد مصر نے اسرائیل کے ساتھ صلح کر لی تھی جس کو عرب ممالک کی طرف سے پسند نہیں کیا گیا اور مصر کے اندر بھی اس پر شدید رد عمل تھا کہ انور سادات جو اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ جا کے امن معاہدہ کر رہے تھے۔ان کو نوبل امن پرائز بھی اسرائیلی صدر کے ساتھ مل چکا تھا۔پھر ان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ان کے جنازے میں اسرائیلی صدر تو شریک ہوئے تھے مگر کسی عرب ملک کے سربراہ نے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی۔اس وقت مسلمان ممالک میں جذبہ جہاد اور اخوت موجود تھا۔وہی آج عود کر آئے تو اسرائیل کو جواب دیا جا سکتا ہے۔اور اس پلاننگ کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے جو مڈل ایسٹ پر قبضے کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔
چلتے چلتے تحریک انصاف کے اسلام آباد میں جلسے کی بات کر لیتے ہیں۔یہ جلسہ تو اپنے انعقاد سے قبل ہی کامیاب ہو گیا تھا جب دو روز قبل بہت سے لوگوں کی طرف سے وہاں سنگ جانی میں ڈیرے جما لئے گئے تھے۔جلسے کی کامیابی کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا غیر جانبدار بھی ہو جانا ہے۔22 اگست کے جلسے کی بھرپور تیاریاں کی گئی تھیں لیکن اسی روز سپریم کورٹ میں ایک حساس نوعیت کے کیس کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا۔مذہبی جماعتوں کے لوگ اسلام آباد کی طرف آ رہے تھے اس موقع پر کسی غلط فہمی کے نتیجے میں کوئی تصادم ہو سکتا تھا۔ اس خدشے کے باعث تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے رابطہ کیا گیا تو عمران خان نے مثبت جواب دیتے ہوئے جلسہ آٹھ ستمبر تک ملتوی کر دیا تھا۔عمران خان کو جلسہ مو¿خر کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے یقین دلایا گیا تھا کہ آٹھ ستمبر کے جلسے کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور واقعی اپنے وعدے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تا ہم حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں کنٹینر ضرور لگا دیے گئے لیکن جلسہ گاہ کو جانے والا راستہ کھلا رکھا گیا۔اس سے لگ رہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جو رابطوں کی باتیں تھی وہ درست تھیں جس کے تحریک انصاف کے حوالے سے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔نیب ترمیم کے حوالے سے گو کہ عمران خان کے موقف کے مطابق فیصلہ نہیں ہوا لیکن اس فیصلے سے عمران خان کے کئی کیسز ختم ہو رہے ہیں۔
قارئین مجھے اگلے چند روز میں پاکستان کی سیاست میں ایک بہت بڑا بریک تھرو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔یہ آئندہ الیکشن کی صورت میں ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فارم 45 اور 47 کے تنازعات عمران خان کے حق میں طے ہی ہونے لگیں اور پاکستان سیاسی اور معاشی جہنم زار سے باہر نکل آئے۔