اگلے ماہ کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہورہا ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ یہ اجلاس ساری عمر وزیرخزانہ رہنے والے اسحاق ڈار جو اب وزیرخارجہ ہیں، کی ایک کامیاب کاوش ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organisation) ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کی تنظیم ہے جسے شنگھائی میں 2001ئ میں چین،روس، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماﺅں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five) کے اراکین تھے۔ سوائے ازبکستان کے جو اس میں بعد میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کے نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ءکو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔
پاکستان 2005ءسے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ءمیں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ءمیں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ’ذمہ داریوں کی یادداشت‘ پر دستخط کردئیے، جس کے بعد پاکستان تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔ 9 جون 2017ءکو پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مکمل رکنیت مل گئی۔سربراہان مملکت کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے بڑا فیصلہ سازی کا حصہ ہے۔ کونسل شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس رکن ممالک کے دار الحکومتوں یاکسی ایک شہرمیں ہر سال منعقد یوتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا اگلاسربراہی اجلاس 15اور 16 اکتوبر کو حکومتِ پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے۔وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملوں کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے اگلے سربراہی اجلاس کو ناکام بنانا ہے۔عسکریت پسند حملوں کو شنگھائی تنظیم سے جوڑنا بتاتا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے اورمجموعی طور پر پاکستان کی وسیع تر خارجہ پالیسی کے منظر نامے میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کتنی اہمیت ہے۔
بلوچستان کے حملوں کو شنگھائی تنظیم سے منسلک کرنے اور ان حملوں کے مضمرات پر توجہ دینے کا بنیادی اور سب سے بڑا عنصر پاک،بھارت دو طرفہ تعلقات پر مرکوز ہے کیونکہ پاکستان کی جانب سے مدعو کیے جانے کے بعد ابھی تک دہلی نے اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی۔2016ءسے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنسز میں بھارت نے کبھی شرکت نہیں کی جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کے اعلیٰ سطح کے حکام کی شرکت، تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کرنے کی روش کے مصداق ہوگا جوکہ دہلی نے اسلام آباد سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرکے اپنائی ہوئی ہے۔بھارت کی شرکت کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر، علاقائی دہشت گردی سربراہی اجلاس کے ایجنڈا میں سب سے اولین نقطہ ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیادیں سکیورٹی تعاون سے جڑی ہیں جبکہ یہ تنظیم ”تین برائیوں“ سے نبرد آزما ہے جن میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے مباحثوں میں توجہ اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ علاقائی دہشت گردی کو بھڑکانے میں افغانستان کس طرح اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ افغانستان بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے لیکن طالبان کی حکومت کو اس کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ تنظیم کے رکن ممالک اتفاقِ رائے نہیں کرپائے کہ افغانستان سے کیسے بات چیت کی جائے۔تاہم اراکین متفق ہیں کہ افغانستان کا استحکام اور موثر انسدادِ دہشت گردی خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی افغان طالبان کی پیش کش کو مسترد کردینے کے تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ سربراہی اجلاس میں افغانستان کے عسکریت پسند گروہوں سے نمٹنے کے حوالے سے بات چیت ہوسکتی ہے۔
امسال جولائی میں قازاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کونسل کے سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کرے تاکہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) خطے کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے، ہمارے چیلنجز مشترکہ ہیں، ہمیں مل کر ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن ہمارا مشترکہ ہدف ہے، افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بامعنی طور پر بات چیت کرنا ہوگی تاکہ وہاں کے عوام کے مسائل حل ہوں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اگلے سربراہی اجلاس میں بلوچستان حملے بھی زیرِبحث آئیں گے۔ بھارت نے اکثر مواقع پر ڈھکے چھپے الفاظ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے فورمز پر علاقائی دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بیانات دئیے ہیں۔ طویل عرصے سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو حاصل بھارت کی پشت پناہی کے بارے میں پاکستان کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کو اکتوبر کے سربراہی اجلاس میں جواب دینے کا موقع ملے گا۔یہی وجہ ہے کہ یہ امکان انتہائی کم ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں محض بات چیت سے زیادہ کچھ ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ وسعت اور اہمیت اختیار کررہا ہے جبکہ کچھ حلقے تو اسے نیٹو کا یوریشین ہم پلہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان ایس سی او کو متحرک تنظیم بنانے اور اہداف کے حصول میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ ’ہمارے چیلنجز مشترکہ ہیں، ہمیں مل کر ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا ہے۔ خطے کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں جغرافیائی سیاسی محاذآرائی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے تجارت کی اہم گزرگاہ ہے، سی پیک کے ذریعے ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول کی جانب گامزن ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے ایس ای او کا اقدام لائق تحسین ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایس ای او خطے کے عوام کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے ایس سی او کی چیئر کی حیثیت سے قازقستان نے بہترین کردار ادا کیا۔ آئندہ سال کے لیے صدر شی جن پھنگ کو ایس سی او کی چیئرمین شپ ملنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
شنگھائی تنظیم کا سربراہی اجلاس
Sep 10, 2024