تحریک انصاف کا پاور شو

بالاآخر تحریک انصاف ایک طویل جدوجہد کے بعد شہر اقتدار میں پاور شو کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ یہ جلسہ اسلام آباد نہیں بلکہ اسلام آبادسے 35 کلومیٹر باہر تھا۔ آخری جلسہ عمران خان نے راولپنڈی میں کیا تھا جس کے بعد حکومت نے تحریک انصاف کو اسلام آباد میں پر بھی نہیں مارنے دیا۔ اس جلسہ کے لیے تحریک انصاف اسلام آباد کے صدر عامر مغل پچھلے چھ ماہ سے کوششیں کر رہے تھے۔ وہ اسی جدوجہد میں کئی بار جیل گئے، انھوں نے سڑکوں پر جدوجہد کے ساتھ ساتھ عدالتی جنگ بھی لڑی، انتظامیہ کے ساتھ بھی اٹ کھڑکا لگائے رکھا۔ کئی بار انتظامیہ نے جلسہ کی تاریخیں دے کر منسوخ کر دیں۔ کئی بار عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے گئے۔ آخری تاریخ عدالتی حکم کے مطابق 22اگست کی طے کی گئی تھی لیکن اس جلسے کی بھی منسوخی کے اندر ایک پر اسراریت پائی جاتی ہے کچھ دوست اس کی منسوخی کو پی ٹی آئی کی ناکامی قرار دے رہے تھے۔ ہم نے متعدد ٹی وی پروگراموں میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے اگلے جلسے کی ایشورٹی پر یہ جلسہ منسوخ کیا ہے اور یہ پی ٹی آئی کی بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس جلسہ کی اجازت اوپر سے آئی تھی اس لیے حکومت اور انتظامیہ یہ جلسہ کروانے پر مجبور تھی۔ حکومت نے پوری کوشش کی کہ آخری دم تک ابہام برقرار رکھا جائے کہ جلسہ ہوگا یا نہیں۔ پھر جس جگہ پر جلسہ کی اجازت دی گئی وہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہ تھی۔ وہ ٹیلے کھڈے کیچڑ اور پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے استعمال میں نہیں لائی جا سکتی تھی لیکن تحریک انصاف کے جنون نے سب ممکن کر دکھایا۔ مشینری کے ساتھ جس حد تک ممکن ہوا اسے ہموار کیا گیا۔ کرسیاں لگانے اور لوگوں کے کھڑے ہونے کے قابل بنایا گیا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے درجنوں راستے بند کر کے جلسہ گاہ پہنچنے کو ایڈونچر بنا دیا تھا۔ آخری حربے کے طور پر جلسہ گاہ کے قریب سے ایک بیگ بھی برآمد ہو گیا جس سے دستی بم اور بارودی مواد بھی برآمد ہوا۔ خوف تھا کہ کہیں جلسہ گاہ میں کوئی واقعہ نہ ہو جائے لیکن تمام تر خدشات کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ جوں جوں لوگوں کو یقین ہوتا گیا کہ جلسہ ہو رہا ہے تو لوگوں نے گھروں سے نکلنا شروع کر دیا۔ اطلاعات ہیں کہ جلسہ کے اختتام تک لوگ جلسہ گاہ کی طرف آتے رہے۔ بےشمار لوگ جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے اور سڑکوں پر ہی اپنا رانجھا راضی کرکے واپس آگئے۔ جلسہ کی اجازت دینے کا مطلب ہوتا ہے کہ انتظامیہ جلسہ گاہ تک پہنچنے اور واپسی کے لیے محفوظ راستے یقینی بنائے۔ شرکاءکی سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن انتظامیہ نے ایسا تکنیکی کام ڈالا کہ اجازت بھی دے دی اور کوشش بھی کی کہ وہاں تک کوئی پہنچ نہ پائے۔ شرکاءکئی کئی میل پیدل چل کر پہنچے۔ لاہور سے حافظ فرحت کا جلوس متاثر کن تھا۔ کئی نامی گرامی لیڈران جن کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا گیا ہے، وہ دو دو چار بندوں کے ساتھ پہنچے۔ زیادہ تعداد میں کارکن اپنی مدد آپ کے تحت خود جلسہ گاہ پہنچے تاہم جیسے تیسے بھی ہوا اس جلسہ کا ہو جانا ہی بڑی بات ہے۔ اس جلسہ نےتحریک انصاف کے مایوس کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ ہم نے انتخابات کے وقت ہی کہہ دیا تھا کہ تحریک انصاف کا مشکل وقت اب آسانیوں میں ڈھلنا شروع ہو جائے گا۔ چونکہ اس سے قبل تحریک انصاف کو سانس لینے میں بھی دشواری تھی، انتخابات نے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے پلیٹ فارم سے بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا تھا، خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھی بڑا آسرا دیا۔ اب تحریک انصاف بطور اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ کے پیج پر آچکی ہے۔ عوامی طاقت اس کے ساتھ ہے چنانچہ حکومت کے لیے اس کا راستہ روکنا بہت ہی مشکل ہے۔ اسلام آباد جلسہ کے بعد اب تحریک انصاف ملک کے دوسرے حصوں میں بھی جلسے کرے گی۔ اس کا سب سے بڑا ٹارگٹ پنجاب ہو گا۔ انھوں نے لاہور میں جلسے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ لاہور کے جلسے کے بعد کراچی میں بھی جلسہ ہو گا اور پھر پنجاب کے شہروں فیصل آباد، ملتان، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، بہاولپور، ساہیوال اور رحیم یار خان کی باری آئے گی۔ جوں جوں جلسے ہوں گے تحریک انصاف کا ورکر فعال ہوتا جائے گا۔ تحریک انصاف کا دباو¿ بڑھتا جائے گا اور حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ البتہ اگر حکومت نے اسلام آباد جلسہ کے بعد مزید کسی جلسہ کی اجازت نہ دی تو ایسی صورت حال بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ تحریک انصاف کو سیاسی سرگرمیوں کی مشروط اجازت مل چکی ہے۔ تحریک انصاف کا برا وقت ختم ہو چکا ہے اب ازسرنو اسے قابو کرنا مشکل ہے۔ تحریک انصاف اس پیج پر جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی جس پر حکومت موجیں مار رہی تھی۔ اوپر سے عدالت نے نیب ترامیم کو درست قرار دے کر بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے لیے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی نیب ترامیم کو چیلنج کر کے خوبصورت سٹروک کھیلا تھا۔ اگر عدالت نیب ترامیم ختم کر دیتی تو حکمرانوں کے بھی تمام کیسز دوبارہ کھل جاتے۔ اب حکمرانوں کو جو فائدہ پہنچا ہے اس سے بانی پی ٹی آئی بھی مستفید ہوں گے۔ ویسے حکمرانوں کو چاہیے کہ پارلیمنٹ سے ان ترامیم کو واپس کروائیں اور عوام کو کہیں کہ ہم بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا بھی احتساب کیا جائے اور عدالتیں فیصلہ کریں کہ کس نے کیا کیا ہے۔ حکومت اب ایک ہی امید لگائے بیٹھی ہے کہ کسی طرح بانی پی ٹی آئی کا کیس ملٹری کورٹ میں چلایا جائے اور ملٹری کورٹ کوئی لمبی چوڑی سزا دےدے ورنہ سیاسی طور پر اب بانی پی ٹی آئی کو قابو کرنا بہت مشکل ہے۔ رجیم چینج کے بعد سیاسی عدم استحکام کی وجہ بھی یہی ہے کہ نہ پی ڈی ایم کی حکومت کچھ ڈیلیور کر پائی، نہ نگران ہی عوام کو مطمئن کر پائے اور نہ ہی موجودہ حکومت عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ الٹا بے روزگاری بڑھ گئی، مہنگائی قابو سے باہر ہو گئی، بجلی کے بلوں نے لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا اور افراتفری اور بیزاری نے حکمرانوں کے پیر نہیں لگنے دیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے ایک دو ماہ میں حکمرانوں کے پاس وہ کونسا الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑ کر وہ عوام کو مطمئن کر پاتے ہیں۔اگر عوامی بیزاری کا یہی حال رہا تو معاملات نہیں چل سکیں گے ‘اب کچھ نہ کچھ تو ہو گا گیم اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...