جیت کا فارمولا

کھیلوں پر بات کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ ہماری زندگیوں ، ہمارے جذبات کا حصہ بن چکے ہیں اور ہونا بھی چاہئے۔ بچپن میں پڑھا کرتے تھے “العقل سلیم فی الجسم سلیم۔” اس بات کو سمجھنا اس وقت مشکل لگتا تھا اور یہ پڑھ کر اپنے کلاس فیلو سلیم کو یہ کہہ کرچھیڑ دیا کرتے تھے کہ سلیم کی عقل سلیم کے جسم میں ہے۔ لیکن بعد میں سمجھ آئی کہ واقعی صحت مند دماغ کیلئے صحت مند جسم کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ جاننے کے باوجود بھی ہم کھیل کھیلنے سے زیادہ دیکھنے تک محدود ہوچکے ہیں۔ اور کھیل بھی ایک کرکٹ۔ وہ تو اللہ خوش رکھے ہمارے قومی نیزہ باز ارشد ندیم کو جس نے ہمیں یاد دلایا کہ اولیمپکس دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے مقابلے ہیں جہاں درجنوں کھیل کھیلے جاتے ہیں، ان کو بھی لوگ دیکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ ورنہ ہم تو سمجھتے تھے کہ شاید کرکٹ ہی کھیل کا نام ہے۔ ویسے کرکٹ کو بائی چانس کہا جاتا ہے۔ یہ کھیل بڑی ٹیموں کیلئے اس حد تک بائی چانس ضرور ہے کہ وہ کبھی ہار جاتی ہیں لیکن ہم کبھی بائی چانس جیت جاتے ہیں۔ جہاں سے ہماری امیدوں کے مینار پھر سے روشن ہوجاتے ہیں اور ہم پھر اسی ٹیم سے جیت کی توقعات وابستہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر جب ہم توقعات لگانا چھوڑنے لگتے ہیں تو ہماری ٹیم بائی چانس جیت جاتی ہے اور پھر ہماری امیدوں کی گھڑی کی سوئی واپس وہیں آجاتی ہے۔ پچیس سال پہلے ننانوے کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نووارد اور کمزور بنگلہ دیشی ٹیم سے ہار گئی تو سازشی تھیوریاں تیار کرنے والوں نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش کو ٹیسٹ ٹیم کا درجہ دلانے کیلئے ہارے۔ اور پچیس سال بعد اسی بنگلہ دیش نے ہمیں ہمارے گھر میں ٹیسٹ سیریز میں وائیٹ واش کردیا۔ وائیٹ واش انگریزی میں سفیدی کرنے کو کہنا جاتا ہے لیکن کرکٹ کی اصطلاح میں تو یہ منہ کالا کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یعنی تمام میچ ہار جانا ،اپنی ہوم گراونڈ یعنی اپنے گھر،ہوم کراوڈ یعنی اپنے لوگوں کے سامنے اور ہوم کنڈیشنز یعنی اپنے مطابق وکٹ تیار کرنے کے بعد بھی اگر مہمان ٹیم سے تمام میچ ہار جائیں تو اس سیاہ کارنامے کو وائیٹ واش کا نام دے دینا کچھ مہذب سا لگتا ہے۔ ہماری اس صدی کی نسل کو صرف کرکٹ ہی دکھتا ہے۔ بانوے کے ورلڈ کپ کے دیوانوں کو شاید معلوم نہیں کہ اسی بانوے کے کرکٹ ورلڈ کپ کیساتھ ہم تین اور کھیلوں کے عالمی چیمپئن بھی اسی دور میں بنے ،جی ہاں یہ وہ وقت تھا جب پاکستان ایک ساتھ کرکٹ کے علاوہ سکواش ،ہاکی اور سنوکر کا بھی عالمی چیمپئن تھا۔ کرکٹ میں تو ہم پہلی بار چیمپئن بنے تھے لیکن ہاکی میں چوتھی بار،اور سکواش میں تو ہم نے سالہا سال ناقابل شکست رہنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر رکھا تھا۔ اور پاکستان کی سکواش میں جیت سے زیادہ اس کی ہار بڑی خبر بن جاتی تھی۔ لیکن پھر جیسے ہم کئی دیگر شعبوں میں زوال پذیر ہوئے کھیلوں میں بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی قوم باقی سب چیزوں میں بہت پیچھے ہو اور کسی ایک شعبے میں دنیا کو پیچھے چھوڑ دے۔ اس وقت دنیا میں امریکہ اور چین میں عالمی سپر پاور کی دوڑ ہے اور حالیہ اولمپکس میں ہم نے دیکھا کہ انہی دو ممالک کے درمیان کھیلوں کے سپر پاور بننے کی دوڑ رہی اور آخر میں دونوں کے گولڈ میڈلز کی تعداد برابر ہوگئی۔ اور باقی میڈلز کی مجموعی تعداد زیادہ ہونے کے باعث امریکہ کھیلوں میں بھی نمبر ون ملک بن گیا اور چین دوسرے نمبر پر رہا۔ یہی نہیں باقی ملکوں کی پوزیشن بھی کچھ ان کی عالمی طاقت کے مطابق ہی دکھائی دیتی ہے تو سمجھ لیں ہم کھیلوں میں کیوں پیچھے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ہم بحیثیت قوم ہی دنیا سے پیچھے رہ چکے ہیں۔ وہ کسی نے کہا تھا کہ آپ اگر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ زندگی میں کہاں کھڑے ہیں تو اپنی گاڑی کا ماڈل چیک کریں۔ آپ کے پاس جتنے پرانے ماڈل کی گاڑی ہے، آپ زندگی میں اتنا ہی پیچھے ہیں۔ تو اس فارمولے کو ہم بحیثیت قوم کسی کی رینکنگ جانچنے کیلئے اولمپکس جیسے عالمی مقابلے کی کارکردگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس بار تو ارشد ندیم نے 93 میٹر کے لگ بھگ نیزہ پھینک کر ہماری رینکنگ بہت بہتر بنادی لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں سے تو ہم بغیر میڈل کے رہنے والے آخری چند ملکوں کی فہرست میں ہوا کرتے تھے ،دراصل ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے تقسیم۔ ہماری کرکٹ ٹیم کی شکست پر جو غیر ملکی کوچز کی رپورٹس ہیں وہ یہی بتاتی ہیں کہ ہماری ٹیم میں شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔ لڑائی ہی کپتانی کی۔ کپتان بننے کی خواہش اور کوشش کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس کےلئے سازش تو قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ اور کچھ ایسا ہی بحیثیت قوم بھی ہم میں موجود ہے۔ کسی بھی میدان میں جیتنا ہے توسب سے پہلے قوم بننا ہوگا، نفرت اور تقسیم ختم کرنا ہوگی تو بہت کچھ خود بخود ٹھیک ہوتا چلا جائے گا۔ ورنہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کھیل ہو یا کوئی اور میدان۔

ای پیپر دی نیشن