افغان طالبان کا حملہ اور پاکستان کا موثر جواب

افغانستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے استحکام اور ترقی کے لیے پاکستان نے بہت اہم کردار ادا کیا، اور اس سلسلے میں قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ پاکستان افغانستان کا کتنا بڑا خیر خواہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لینا چاہیے کہ اب سے ساڑھے چار دہائیاں پہلے جب امریکہ، سوویٹ جنگ نے افغانستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تو پاکستان نے آگے بڑھ کر ہر طرح سے افغانستان کی مدد کی اور اس کے شہریوں کو بہت بڑی تعداد میں اپنے ہاں نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کے لیے ہر قسم کی سہولیات کا انتظام بھی کیا۔ اقوامِ متحدہ سمیت بہت سے بین الاقوامی ادارے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کی مدد کر کے ایک ایسی سنہری روایت کو جنم دیا جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ اس سب کے باوجود افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا قابلِ افسوس بھی ہے اور لائقِ مذمت بھی۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ امریکی نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ 2001ءسے 2021ءتک بھارت نے افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگست 2021ءمیں جب امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کی افواج افغانستان سے نکل گئیں اور وہاں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوگئی تو پاکستان کو یہ امید تھی کہ طالبان قیادت اس بات کا خیال کرے گی کہ ان میں سے بھی بہت سے لوگ کسمپرسی کے عالم کے پاکستان کے مہمان رہ چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ نے بھی پناہ گزینی کے دوران پاکستان میں چند برس نہیں بلکہ دہائیاں گزاریں۔ لیکن یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ طالبان قیادت نے اس کا ہرگز احساس نہیں کیا اور اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی افغان سرزمین سے موجود دہشت گرد گروہ اور تنظیمیں پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیاں کررہی ہیں۔ علاوہ ازیں، افغان طالبان خود بھی مسلسل پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
اسی نوعیت کی ایک کارروائی 7 ستمبر کی صبح ہوئی جب افغان طالبان کی جانب سے پاک-افغان سرحد سے متصل افغان علاقے پلوسین سے پاکستانی چیک پوسٹوں پر بھاری ہتھیاروں سے بلا اشتعال فائرنگ کی گئی۔ پاک فوج نے اس بلااشتعال جارحیت کا بھرپور جواب دیا اور فائرنگ کے تبادلے میں اہم طالبان کمانڈروں سمیت 8 طالبان دہشت گرد ہلاک اور 16 زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں دو اہم کمانڈرز خلیل اور جان محمد بھی شامل ہیں۔ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے حملوں کے ساتھ ساتھ اب افغان طالبان کی بین الاقوامی سرحد پر جارحیت کھل کر سامنے آرہی ہے۔ افغانستان کی طرف سے جارحیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور پاک فوج اس سے پہلے بھی افغان طالبان کو منہ توڑ جواب دے کر یہ واضح کرچکی ہے کہ ایسے کسی بھی ایڈونچر کو مس ایڈونچر بنانے میں ہم زیادہ دیر نہیں لگاتے۔
ایک طرف افغان طالبان بلا اشتعال اس قسم کی جارحیت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کی آشیرباد سے افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ پاکستانی علاقوں میں کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کسی نہ کسی علاقے میں تخریب کاری کی کوئی واردات نہ ہوتی ہو اور ان سب واقعات میں ملوث عناصر افغان سرزمین پر موجود ہیں۔ سوموار کو ہونے والے اسی طرز کے ایک واقعے میں ضلع جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا میں ایک گاڑی پر بم حملے میں قبائلی رہنما ملک جمیل وزیر کا بیٹا جاں بحق جبکہ رہنما سمیت 3 افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے بتایا کہ دھماکے میں ملک جمیل وزیر سمیت 4 افراد زخمی ہوئے جبکہ ملک جمیل وزیر کا بیٹا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا۔ یہ قبائلی رہنما علاقہ کڑیکوٹ سے وانا بازار جا رہے تھے، نامعلوم افراد نے کڑیکوٹ بازار کے قریب سڑک کے کنارے بم نصب کیاتھا۔ زخمیوں کو تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال منتقل کر کے پولیس کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
افغان سرزمین کو جس طرح دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی طرف سے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ طالبان نے بیس سالہ جنگ سے کچھ نہیں سیکھا اور وہ دہشت گردی اور تخریب کاری سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ ان کی انھی حرکتوں کی وجہ سے بین الاقوامی برادری ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کررہی۔ پاکستان بین الاقوامی برادری کی نظروں میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کو قابلِ اعتبار بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن طالبان کی محسن کشی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین معاملات بگاڑ کا شکار ہورہے ہیں جس کا نقصان افغان عوام کو ہورہا ہے۔ مزید یہ کہ بھارت کے اشاروں پر پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کر کے طالبان اپنی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔ اگر انھیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کر کے انھیں کوئی فائدہ ہوسکتا ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے جو جتنی جلد دور ہوجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ جیسے اداروں اور امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کو بھی پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وارداتیں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری بین الاقوامی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہئیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...