پی ٹی آئی کا بنگلہ دیش میں چلائی تحریک دہرانے کا ارادہ۔

2022ء کے آغاز سے اس کالم میں لکھے چلے جارہا ہوں کہ وطن عزیز میں ’’صحافت‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’سیاست‘‘ بھی نہیں ہورہی۔ حکمران اشرافیہ انگریزی زبان والے رولز آف گیم طے کرنے میں قطعاََ ناکام ہے۔ پارلیمان،عدلیہ ا ور انتظامیہ ریاست کے ’’ستون‘‘ تو ہیں مگر ایک دوسرے کے ’’ہم قامت‘‘ نہیں۔ ان میں سے ایک نے اپنی بالادستی 1950ء کی دہائی شروع ہونے کے چند ہی ماہ بعد ثابت کردی تھی۔ محض قلم کی طاقت والے ستون نے اگرچہ اس کا ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی بنیاد پر ساتھ دیا۔ پارلیمان بے چاری پے در پے مارشل لائوں کو نام نہاد ’’جمہوری نظام‘‘ کی بحالی کے بعد بھی ’’معاف‘‘ کرتے ہوئے اپنی وقعت کاملاََ کھوچکی ہے۔
بنیادی مسئلہ موجودہ بحران کے حوالے سے 2007ء  کے اپریل میں شروع ہوا تھا۔ ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو چند فائلیں دکھاکر استعفیٰ مانگا گیا۔ موصوف نے انکار کردیا تو ان کی حمایت میں ’’عوامی تحریک‘‘ امڈ پڑی۔ وہ تحریک کتنی فطری اور برجستہ تھی اس کے بارے میں تاریخ ہی فیصلہ کرسکتی ہے۔ محلاتی سازشوں کی حرکیات سمجھنے والے البتہ اصرار کرتے ہیں کہ افتخار چوہدری کے ’’انکار‘‘ کو ’’ان‘‘ کی سرپرستی بھی میسر تھی جو جنرل مشرف کو اپنے ادارے پر بوجھ تصور کرنا شروع ہوگئے تھے۔ امریکہ کے ساتھ مل کر نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف ہوئی جنگ کے علاوہ ہمارے ازلی دشمن کے ساتھ ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ جیسے سمجھوتے کے امکانات نے بھی ادارے کے کئی افراد کو ناراض کردیا تھا۔
حقیقت کچھ بھی ر ہی ہو۔ فطری یا محلاتی سازش کی بنیاد پر چلائی عدلیہ بحالی تحریک بالآخر افتخار چوہدری کے چیف جسٹس کے منصب پر واپس  لوٹنے پر منتج ہوئی۔ وہ اپنے منصب پر لوٹے تو ’’ماورائے حکومت‘‘ ہوگئے۔ اراکین پارلیمان کی ڈگریاں چیک کرنے کے علاوہ ازخود نوٹسوں کے ذریعے وزراء کو بھی عدالتوں میں طلب کرنے لگے۔ بتدریج نوبت بہ ایں جارسید کہ منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو یہ حکم دیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب صدر کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھیں۔ اس کے ذریعے سوئس حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ وہاں موجود بینکوں میں آصف علی زرداری کی مبینہ طورپر چھپائی دولت کا سراغ لگائے۔ سراغ مل جاتا تو نشان دہ رقم پاکستان آجاتی۔ گیلانی نے اپنے ہی ملک کے منتخب صدر کے خلاف ایک غیر ملک کو خط لکھ کر پاکستان کو بدنام کرنے سے گریز کیا۔ اس پہلو کو مگر سراہا نہیں گیا۔ قومی ضمیر کے اپنے تئیں محافظ اور کرپشن کے دشمن میڈیا نے ٹی وی سکرینوں پر ٹکروں کی برسات اور پھیپھڑوں کا زور لگاتی آوازوں کے ذریعے افتخار چوہدری کا ساتھ دیا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔ سوئس بینکوں میں آصف علی زرداری کی مبینہ طورپر چھپائی رقم مگر قومی خزانے میں واپس نہیں آئی۔ آصف علی زرداری البتہ ایوان صدر میں مزید پانچ سال رہنے کیلئے واپس آچکے ہیں۔
افتخار چوہدری جب جعلی مسیحا کا روپ دھارے میرے بے شمار ساتھیوں کے ہیرو بنے ہوئے تھے تو میں فریاد کرتا رہا کہ موصوف جو روایات سیٹ کررہے ہیں بالآخر ہماری ریاست کے اداروں کے مابین توازن کو تہس نہس کردیں گی۔ مجھے ’’جیالا‘‘ ہونے کے طعنے دیتے ہوئے خاموش کرنے کی کوشش ہوئی۔ افتخار چوہدری مگر جو راہ دکھاگئے تھے اس پر چلنے کو ثاقب نثار ہی نہیں آصف سعید کھوسہ بھی دل وجان سے تیار ہوگئے۔ نشانہ ان کا بھی لیکن ایک اور منتخب وزیر اعظم اور اس کی حکومت ہی رہے۔ نواز شریف تاحیات سیاست میں حصہ لینے کو نااہل ہوئے تو ان کی جگہ لینے کو موروثی سیاست اور بارلیاں لینے والوں کے خلاف متحرک ہوئے کرشمہ ساز کو ’’صادق اور امین‘‘ کی سنددیتے ہوئے 2018ء میں پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنے کی راہ ہموار کردی گئی۔’’باریاں لینے والے نااہل اور بدعنوان‘‘ سیاستدانوں کے خلاف ریاست کے تینوں ستون اگست 2018ء  سے اکتوبر 2021ء تک ’’سیم پیج‘‘ پر رہے۔ زندگی یوں ہی رواں رہتی مگر سادہ لوح عوام کو سیدھی راہ پر دھکیلنے کے لئے قمر جاوید باجوہ کو اپنے عہدے کی میعاد میں مزید توسیع درکار تھی۔ عمران خان اس حوالے سے ’’پکڑائی‘‘ نہیں دے رہے تھے۔ اس گماں میں مبتلا رہے کہ کسی اور کو ’’فیض یاب‘‘ کرتے ہوئے اپنے تھلے لگایا جاسکتا ہے۔ اپنے میں سے ابھرے کسی فرد کو اگرچہ ’’وہ‘‘ سیاستدانوں کے تھلے لگنے نہیں دیتے۔ اتھل پتھل شروع ہوگئی۔ عمران خان اس کی وجہ سے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو دریافت ہوا کہ عالمی معیشت کے نگہبانوں کے ساتھ ہوئے معاہدوں کونظرانداز کرتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے کی جانب دھکیل دیا گیا۔ دیوالیہ سے بچنے کی خاطر عمران خان کی جگہ لینے والوں نے ناقابل التوا اقدامات لئے تو ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔ قوم آج بھی اس سے بدحال ہے۔ سا۔دگی میں یہ تصور کئے بیٹھی ہے کہ معاشی اعتبار سے جو ’’نحوست‘‘ اس کے متھے لگی ہے وہ عمران خان کی برطرفی کا نتیجہ ہے۔ عمران حکومت کی جگہ آئی حکومت اور اس کے سرپرست وسہولت کاروں کو عوام کی اکثریت اپنی معاشی مشکلات کا حقیقی ذمہ دار تصور کرتی ہے۔
ایسے عالم میں افتخار چوہدری کی بنائی روایات سے مالا مال ہوا ’’ستون‘‘ خودکو ریاست کے باقی دو ستونوں کے مقابلے میں اخلاقی اعتبار سے زیادہ طاقتور تصور کررہا ہے۔ وہاں بیٹھے افراد کی ’’اصولوں‘‘ سے محبت نے مگر دیگر اداروں کو پریشان کررکھا ہے۔ محلاتی سازشیں لہٰذا جاری ہیں۔ دریں اثناء باریاں لینے والے کرپٹ اور موروثی سیاستدانوں کی جگہ ’’تیسری قوت‘‘ کی سرپرستی کا پراجیکٹ چلانے والے صاحب بھی اب گرفتار ہوچکے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ ’’کسی اور کی‘‘ طاقت ور ترین ریاستی عہدے پر تعیناتی سے مایوس ہوکر ریٹائر ہوجانے کے باوجود بھی وہ ’’تیسری قوت‘‘ والے پراجیکٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ ان پر لگائے الزام اب عمران خان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔
اپنے قائد کی پریشانیوں کے تدارک کے لئے تحریک انصاف بالآخر 8ستمبر کے دن اسلام آباد میں ایک بڑا شولگانے میں کامیاب ہوگئی۔ نظر بظاہر تحریک انصاف کو 8ستمبر کا جلسہ کرنے کی اجازت 22اگست کا جلسہ ملتوی کرنے کے عوض ملی تھی۔ اجازت مل ہی گئی تھی تو وفاقی حکومت کی جانب سے 7ستمبر کی رات ساڑھے 11بجے سے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں کی کثیر تعداد کو کنٹینروں سے بند کرنا احمقانہ فیصلہ تھا۔ اس فیصلے پر تاہم عمل ہوا اور اپنے گھروں میں خوف سے دبک کر بیٹھے اسلام آباد کے باسیوں کی اکثریت نے یہ فیصلہ کرلیا کہ تحریک انصاف کا جلسہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اتوار کی شب جب وہ جلسہ جاری تھا تو راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی چونگی نمبر26پر ’’پلس مقابلہ‘‘ بھی ہوگیا۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے 8ستمبر کے لئے طے ہوئی 41 شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ ’’کتنے بندے تھے‘‘ والی بحث میں وقت ضائع نہ کریں تو تحریک انصاف نے میڈیا کی حد تک شو‘‘ لگادیا ہے۔ اب مگر کیا ہوگا۔ اپنی ’’کامیابی‘‘ پر شاداں محسوس کرتے تحریک انصاف اور ان کی اتحادی جماعت کے رہ نمائوں نے حکومت کو عمران خان کی رہائی کے لئے 15دنوں کی مہلت دی ہے۔ وہ رہا نہ ہوئے تو پاکستان میں حال ہی میں بنگلہ دیش میں چلائی تحریک کو دہرانے کا ارادہ ہے۔ محلاتی سازشوں کا لہٰذا ’’نیا سیزن‘‘ شروع ہوگیا ہے۔ اسے بے بس ولاچار تماشائیوں کی طرح بھگتنے کو تیار ہوجائیں۔

ای پیپر دی نیشن