تقریرات مویشی منڈی۔

تقریر کی جمع تقریرات کو اگر آپ غلط سمجھتے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ دورِحاضر میں اصلاح زبان اور اصلاح لب و لہجہ کی مستند ترین لغت ’’انصاف اللّغات‘‘ کے مطابق تقریر کی جمع تقریرات بالکل درست ہے۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ یہ مستند ترین لغت آپ کو کسی کتب فروش سے نہیں ملے گی اس لئے کہ اس کی ہارڈ کاپی یعنی مطلوبہ نسخہ ہے ہی نہیں، البتہ اس کی سافٹ کاپی، سافٹ ویر کی شکل میں تحریک انصاف کے ہر چھوٹے بڑے کے دماغ میں ضرور محفوظ ملے گی۔ آپ کو پی ٹی آئی کے مخالف اکثر یہ طعنہ دیتے ہوئے ملیں گے کہ تحریک انصاف والوں کی کھوپڑی یعنی کاسہء  سر میں دماغ نام کی کوئی شے ہوتی ہی نہیں ہے۔ دراصل اس کے پیچھے بھی یہی بات ہے، دماغ کی جگہ تو ساری انصاف اللّغات نے گھیر لی، اس لئے مجبوری تھی تو دماغ کو گھر بدر ہونا پڑا۔ 
خیر، اردو لغت کا معاملہ بالعموم یہ ہے کہ ایک بار کوئی لغت کسی نے لکھ دی اور چھاپ دی، وہ قیامت تک کفایت کرتی ہے یعنی اس میں ترمیم یا اضافہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ بس ہر بار وہی اصل نسخہ چھاپ دیا۔ البتہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر انگلش ہی کو دیکھ لیجئے، ہر ڈکشنری چاہے آکسفورڈ کی ہو چاہے چیمبر کی، ویسبٹرکی ہو یا لانگ مین کی، ہر دوسرے تیسرے یا چوتھے سال اس کا اضافہ شدہ ایڈیشن چھپتا ہے اور ہر ایڈیشن پچھلے ایڈیشن سے موٹا ہوتا ہے۔ اور آپ کو حیرت ہو گی، انصاف اللّغات اس معاملے میں انگریزی پر بھی بازی لے گیا ہے۔ اس لغات میں اضافہ جات سالانہ نہیں روانہ کی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ ہر روز نئے نئے محاورے، اصطلاحات، ترکیبات اور دیگر مصالحہ جات ایجاد ہوتے رہتے ہیں۔ کل کے جلسہ منعقدہ مویشی منڈی برمقام سنگ جانی نزد اسلام آباد ہی کو دیکھ لیجئے۔ اس میں جو تقریر فخر انصافیاں علی امین گنڈا پور نے کی اور خواتین صحافیوں کیلئے جو اصطلاح بامحاورہ استعمال کی، وہ اس سے پہلے دنیا کی کسی لغت، حتیٰ کہ خود انصاف اللّغات میں بھی موجود نہیں تھی۔ انہوں نے خواتین صحافیوں کیلئے ’’مینوں نوٹ دکھا، میرا موڈ بنے‘‘ کی اصطلاح استعمال کی (یا محاورہ یا مصالحہ کچھ بھی کہہ لیجئے)۔ اس اضافہ شدہ ایڈیشن پر خواتین صحافیوں کے ساتھ مرد صحافیوں کا موڈ بھی خراب ہو گیا اور ہر طرف سے ’’بیداد‘‘ کے ڈونگرے برسنے لگے۔ خواتین اور مرد صحافیوں کیلئے بعدازاں گنڈاپور نے اجتماعی طور پر لغت بھی ارسال کی اور پھر یہ بھی ارشاد کیا کہ ان سب کو ننگا کیا جائے گا۔ ننگا کرنا پی ٹی آئی کا قدیمی قومی ترانہ ہے، ایک بار خان صاحب نے اپنے ایک معرکتہ الآرا خطاب میں اس ارادے کا اظہار ایک درجن سے زیادہ بار کیا تھا۔ گنڈاپور نے سب کو ننگا کرنے کے اجتماعی ارادے کا اعلان تو کیا لیکن اس کا ٹائم ٹیبل نہیں دیا۔ سنا ہے کہ ٹائم ٹیبل لاہور کے جلسے میں دیا جائے گا۔ 
______
سنگجانی کی مویشی منڈی میں جس جلسے سے گنڈا پور نے خطاب کیا وہ اپنی جگہ تاریخی جلسہ تھا۔ آٹھ کنال کے گرائونڈ کا، خدا جھوٹ نہ بلوائے ، آدھا حصہ یعنی چار کنال رقبہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ باقی آدھا احتراماً خالی رہا۔ مویشی حضرات کو انتظامیہ نے جلسے سے ایک د ن پہلے ہی وہاں سے نکال کر کسی دوسری جگہ پہنچا دیا تھا تاکہ نئے حضرات کو جگہ ملے سکے۔ اس جلسہ کے مہمان خصوصی گنڈاپور تھے جو ایک لاکھ افراد کا جلوس لے کر آئے۔ یہ ایک لاکھ افراد ان دو سو کاروں میں آئے جن کے قافلے کی قیادت خود گنڈاپور نے کی۔ دو سو کاروں میں ایک لاکھ افراد کی آمد بذات خود ایک معجزہ (یا یکے از کرامات) ہے لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ پی ٹی آئی کی تاریخ کرامات اور معجزات سے عبارت ہے۔ 
ان کا خطاب حاصل جلسہ دو خطابات میں سے ایک تھا۔ دوسرا حاصل جلسہ خطاب محمود خاں اچکزئی کا تھا۔ پہلے اس کا ذکر ہو جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ پی ٹی آئی کے جلسے کے سٹیج پر صحیح سلامت حالت میں نہیں چڑھ سکتا۔ جو بھی چڑھے گا، اس کے کپڑے پھٹ جاتے اور جیب کٹ جاتی ہے۔ 
کپڑے پھاڑنے کا تعلق پارٹی کے قومی ترانے (ننگا کر دیں گے) سے ہے اور جیب کٹنے کا پارٹی کی معاشی پالیسی سے ہے۔ اچکزئی صاحب نے دو فقروں میں پارٹی کے ضابطہ اخلاق اور نظام معاشیات سمو کے رکھ دیا۔ یعنی کوزے کو دریا میں بند کر دیا (دریا کو کوزے میں بند کرنا پرانا محاورہ ہے، یہ نیا محاورہ انصاف اللّغات سے لیا ہے)۔ 
______
گنڈا پور نے لاہور کے جلسے کا دھمکی نما اعلان کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر اعلیٰ کو یوں مخاطب کیا، اومریم، سن لو، ہم پختون لاہور میں آ رہے ہیں اور ہمیں روکا تو تم ڈھاکے اور بنگلہ دیش والے انجام کو بھول جائو گی۔ 
حتمی طور پر یہ تصحیح بھی ہو گئی کہ پی ٹی آئی پاکستان تحریک انصاف کا مخفف نہیں ہے بلکہ ’’ہم پختون‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا مطلب پختون تحریک انصاف سے ہے اور پختون تحریک انصاف پنجاب کو ایک اور سقوط ڈھاکہ کی دھمکی دے رہی ہے۔ 
اس میں ایک الجھن ہے۔ سقوط ڈھاکہ کیلئے ایک عدد اروڑا اور ایک عدد نیازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ ایک ہتھیار ڈلوا سکے، دوسرا ہتھیار ڈال سکے۔ الجھن یہ ہے کہ اروڑا ادھر کوئی رہا نہیں، اور ادھر ایک عدد نیازی ہے تو سہی لیکن جیل میں ہے۔ 
جیل میں بیٹھا ایک عدد نیازی کسی میدان میں آ کر کیسے ہتھیار ڈال سکتا ہے؟۔ اور ہاں، ایک پلٹن میدان بھی تو چاہیے، کیا گنڈاپور اڈیالے والے دیسی بکرا کٹّا مرغا ہائوس ہی کو پلٹن میدان سمجھ بیٹھے ہیں؟ 
بہرحال، اس خطاب عالیہ کے بعد اہل لاہور کو گنڈاپور کی آمد کا شدّت سے انتظار رہے گا لیکن شاید وہ نہ آ پائیں، بیچ میں اڈیالہ پڑتا ہے (بلکہ سفر کے شروع میں پڑتا ہے) خدشہ ہے کہ وہیں کے ہو کر نہ رہ جائیں۔ 
______

پختون تحریک انصاف (پی آئی آئی) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارے پختون اسی جماعت میں ہیں۔ دو روز پہلے ایک پختون رہنما مولانا فضل الرحمن نے لاہور کے مینار پاکستان پر جلسہ کیا۔ 
جلسہ کچھ خاص بڑا نہیں تھا، بس سنگجانی کی مویشی منڈی میں ہونے والے جلسے سے پچاس ، ساٹھ گنا ہی بڑا تھا ، اس سے زیادہ نہیں۔ 
کہنے والے کہتے ہیں کہ دیکھنے والے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ پختون تحریک انصاف کی ’’مسّل پاور کتنی ہے تاکہ اس کے تخمینے کو دیکھ کر آئندہ کے اقدامات کا فیصلہ کر سکیں۔ سو یہ تخمینہ ہو گیا، اب دیکھئے ، کیا اقدامات ظہور پذیر کئے جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن