پاکستان تحریک انصاف کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے یہ خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لیے کافی ہیں۔ وگرنہ دور حکومت میں جتنی مدد، تعاون اور حمایت انہیں حاصل رہی اگر یہ سمجھ داری سے کام لیتے تو یقینا ملکی مسائل بھی حل ہوتے اور حکومت بھی ایسے ختم نہ ہوتی جیسے ہوئی تھی، اگر یہ عقل و شعور سے کام لیتے تو عام آدمی کا بھلا ہوتا اور ملک کے بنیادی مسائل حل ہوتے، تعمیر و ترقی کا سفر شروع ہوتا لیکن انہوں نے کام کرنے کے بجائے سارا وقت صرف بیان بازی سیاسی مخالفین کے ساتھ حساب برابر کرنے اور ان کا مذاق بنانے میں ضائع کیا، دوست ممالک کے ساتھ بھی تعلقات خراب کئے اور اندرونی طور پر بھی نفرت پھیلائی، اپنی ہر ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہوئے خود مظلوم بننے کی کوشش کرتے رہے اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔ پی ٹی آئی عوامی حمایت کا درست استعمال کرنے میں کسی بھی وقت کامیاب نہیں ہو سکی، وہ طاقت جسے ملک کی بہتری اور تعمیر کے لئے استعمال ہونا تھا اسے صرف اور صرف جلاو گھیراؤ اور طوفان بدتمیزی کے لیے استعمال کر کے ملک میں نفرت کو ہوا دی، معصوم سادہ لوح لوگوں میں احساس محرومی پیدا کر کے انہیں ملک کے خلاف بھڑکایا اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اتوار کو پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں جلسہ کیا ہے اس جلسے میں ناصرف قوانین کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ معاہدے توڑے گئے، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس جلسے کا سب سے افسوسناک اور خطرناک پہلو پاکستان تحریک انصاف کے مقررین کی زبان تھی۔ جو زبان استعمال جلسے میں پاکستان کے دفاعی اداروں، سیاسی قیادت ، میڈیا و دیگر اداروں اور شخصیات بارے استعمال کی گئی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس جلسے میں تقریر کرنے والوں کو سننے کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں کوئی سیاسی جلسہ کیا ہے۔ اسے سیاسی سرگرمی کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی جماعتوں اور جتھوں میں فرق ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ملکی مسائل حل کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کرتی ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کا مقصد بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالنا ہے تو پھر عدالتیں بند کر دی جائیں۔ سینکڑوں یا ہزاروں لوگ جمع کر کے اگر کوئی گروہ عدالت یا جیل پر چڑھائی کرے اور کسی بھی قیدی کو چھڑانے کے لیے دباؤ ڈالے تو کیا قیدی کو رہا کر دیا جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا جن مقدمات کی بنیاد پر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف ان کے خاندان یا آصف علی زرداری اور ان کے خاندان کو نشانہ بنایا جاتا ہے ویسے ہی اختیارات کے ناجائز استعمال یا ناجائز ذرائع آمدن کے مقدمات بانی پی ٹی آئی پر ہیں اور وہ ان مقدمات کے نتیجے میں قید ہیں پھر یہ دھمکیاں کوئی وزن نہیں رکھتیں۔ اس لیے جو زبان اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے استعمال کی ہے اس کی کسی بھی سطح پر کسی بھی دلیل کے ساتھ کوئی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ کیا بدقسمتی ہے کہ علی امین گنڈا پور ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں اس وقت وہ اپنی جماعت میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں لیکن جس انداز میں وہ گفتگو کرتے ہیں اس سے واضح طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ علی امین گنڈا پور کسی خاص مقصد کے تحت لوگوں کے جذبات بھڑکا رہے ہیں وہ لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور خدانخواستہ پھر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو سب کہیں گے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہم نے تو لوگوں سے نہیں کہا کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، میڈیا پر آپ چڑھ دوڑیں، اداروں کو للکایں، ریاستی اداروں کو دھمکیاں دیں سیاسی جماعتوں کا نہ تو یہ انداز ہے نہ ہی جمہوری طریقہ کار ہے ۔ جمہوریت تو پرامن رہنے کا پیغام دیتی ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں قائدین کی تقاریر میں بے چینی کا احساس بھی ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے مختلف مقدمات میں مطلوب افراد کو اپنی آزادی بھی خطرے میں نظر آ رہی ہے جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، احتسابی عمل تیز ہو رہا ہے ویسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد اگر آپ یہ سمجھیں کہ آزاد رہیں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا یہ ذرا مشکل ہے۔ ایسا عمل کوئی بھی شخص اور کوئی بھی سیاسی جماعت کرے اس کی ناصرف حوصلہ شکنی ہونی چاہیے بلکہ اس کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی ہونی چاہیے، قانون توڑنے والوں اور ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہو گا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صحافیوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ تم لوگ جو ہمارے خلاف کمپین کر رہے ہو تم سمجھتے ہو کہ ہمیں بلیک میل کر لو گے۔ انہوں نے خاتون صحافیوں کیلئے بھی نازیبا زبان استعمال کی اور صحافیوں کو دھمکاتے ہوئے کہا میں حریف صحافیوں کو ننگا کروں گا۔ عمران خان کی رہائی کیلئے حکومت کو ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ ایک سے دو ہفتے میں قانونی طور پر عمران خان رہا نہ ہوا تو ہم پھر انہیں خود رہا کریں گے۔
کیا ایسے نظام چل سکتا ہے، سابق صدر عارف علوی نے پرانی ویڈیو شیئر کی پھر انہیں ڈیلیٹ کرنا پڑی یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیں خیبر پختونخوا حکومت صوبے میں امن قائم کرنے کے سلسلے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے، پارٹی اختلافات کا شکار ہے، تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں ان حالات میں پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر دھمکیوں کی سیاست کا راستہ اختیار کر رہی ہے یہ جارحانہ حکمت عملی آئینی و قانونی معاملات میں مختلف مقدمات میں قید افراد کے لیے آسانی پیدا کرے گی یا مشکلات میں اضافہ ہو گا اس کا اندازہ سیاسی معاملات اور سیاسی طریقہ کار سے ناواقف پی ٹی آئی قیادت کو بھی نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ ایسے لوگ جو صرف جذباتی انداز میں سوچے سمجھے بغیر بولتے چلے جاتے ہیں، یہ ہاتھوں سے باندھ کر دانتوں سے کھولنے والی بات ہے۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات نوجوان نسل میں پھیلنے والی گمراہی، بے چینی اور عدم برداشت ہے۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اتوار کو پی ٹی آئی جلسے میں قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں اس حوالے سے کل بات کریں گے۔ سب اپنا خیال رکھیں دوبارہ ملاقات ہو گی۔
آخر میں مرزا غالب کا کلام
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
نہ شعلہ میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے باد گلفام مشک بو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے