”طاقت “کے مت فریب میں آ جائیو

دنیا کی قدیم ترین کتاب لگ بھگ ساڑھے چار ہزار برس قبل لکھی گئی جو اس وقت کے فرعون کے وزیر پتاہوتپ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کیلئے تحریر کی تھی۔ یوں تو عقلمند کیلئے اشارے کی طرح ساری نصیحتیں ہی غور سے سننے اور سمجھنے والی ہیں تاہم ایک تو بہت ہی اہم ہے اور وہ ہے ”جو سمجھتا ہے کہ وہ طاقتور ہے تو وہ اپنی ذات کی اہمیت کے جال میں پھنس چکا ہے“ 
یوں تو سارے نشے ہی برے ہوتے ہیں لیکن طاقت کا نشہ تو کسی قابل نہیں چھوڑتا۔ نمرود، شداد یا خود حضرت موسیٰؑ کا راستہ روکنے والا فرعون ہو، مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دلدل پر بنے کہرے کے محلات میں بھلا کون بسیرا کر سکتا ہے۔ اسی لئے تو سکندر اعظم جب دنیا سے گیا تو اس کے دونوں ہاتھ ایک نئے پیدا ہونے والے بچے کی طرح بالکل خالی تھے۔ رومن ایمپائر کا پہلا بادشاہ سیزر بھی اسی وقت اپنے دوستوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گیا تھا جب اسے ”سب اچھا“ کی رپورٹ ملی ہو گی۔ یہ تو خیر شکسپیئر تھا جس نے اس کے منہ میں”you too Brutus“ (بروٹس ....تم بھی؟) کے الفاظ دیکر اسے مزید یادگار بنا دیا ورنہ طاقت کے نشے میں چ±ور مرنیوالے کو تو اتنا بھی ہوش نہیں رہتا کہ وہ پلک جھپک سکے کہ ساری حیرانیاں اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا کرتی ہیں۔ فرانسیسی انقلاب کے نقیب فلاسفر روسو نے اسی لئے تو کہا تھا کہ بھائی دنیا گول ہے جو ایک طرف کھڑا اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہے دوسری طرف پاو¿ں کے بل گرا ہوا ملتا ہے۔ فلاسفر کے اپنے الفاظ کے مطابق ”جو خود کو بہت طاقتور سمجھتا ہے وہ درحقیقت غلاموں کا غلام ہوتا ہے“۔ 
پاکستان کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیں۔ سکندر مرزا کو اقتدار ملا تو انہوں نے اپنے اردگرد سبھی کو حقیر جانا۔ نمرود نے سر پر جوتے کھانے میں عافیت سمجھی تھی تو انہوں نے اپنے ہی بنائے آئین کو ”کچرا“ کہہ کر سیاست کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ ہوش اس وقت آیا جب ایوب خان اپنے ساتھیوں سمیت سر پر آن پہنچے اور کھڑے کھڑے استعفیٰ لیکر چلتے بنے۔
ایک روز اسی طرح یحییٰ، ایوب خان کے آفس میں آئے اور من کی مراد یعنی استعفیٰ لیکر یہ جا وہ جا .... دروغ برگردن راوی۔ ایوب خان عہدہ صدارت سے فارغ ہونے کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں چائے پینے گئے تو واپس جاتے ہوئے کپ بھی توڑ ڈالا۔ ویٹر کو بلا کر کہا کہ چائے کے ساتھ کپ کے پیسے بھی بل میں شامل کر لے۔ کپ توڑا اس لئے ہے کہ اس میں ایک .... نے چائے پی تھی یادش بخیر....! ایوب خان کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں انکے خلاف جو نعرے لگا کرتے تھے ان میں سب سے مشہور وہی نعرہ تھا جس میں ایک جیتے جاگتے انسان کو ایک انتہائی وفادار جانور سے تشبیہہ دیدی جاتی ہے۔
اپنے وقت کے طاقتور ترین افراد میں شمار ہونے والے یحییٰ خان کا احوال بھی کچھ مختلف نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی ان کا اقتدار بھی گیا تو عوام میں ان کے خلاف نفرت بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔ انہیں گاڑی کے ذریعے سفر کرایا جاتا اور سختی سے ہدایت کی جاتی کہ راہ گزر سے سرجھکا کر گزریں عوام بہت مشتعل ہیں بصورت دیگر لے جانے، لانے اور ان کی ڈیوٹی لگانے والا ذمہ دار نہ ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ریلوے سٹیشنوں اور دیگر پبلک مقامات پر لکھا ہوتا ہے کہ ”اپنے سامان کی خود حفاظت کریں، انتظامیہ ذمہ دار نہ ہو گی“ سنا ہے ایک بار کھاریاں کے قریب ریلوے پھاٹک پر ان کی گاڑی آکر رکی تو موصوف کے ذہن میں شاید اپنی اصل مقبولیت دیکھنے کا خیال آ گیا سوچا کہ ان سے نفرت کی باتیں یقیناً جھوٹی باتیں ہیں اور انشاءجی کے بقول لوگوں نے پھیلائی ہیں چنانچہ سر کھڑکی سے بلند کیاہی تھا کہ باہر سے کسی نے ”یحییٰ“ کا فلک شگاف نعرہ لگایا۔ موقع پر پھول اور ہار تو میسر نہ آ سکے البتہ لوگ ہر جگہ پہلے سے موجود اینٹ پتھر لیکر ”استقبال“ کو دوڑے۔ وہ تو ڈرائیور ماہر تھا جو صاف بچا کر لے گیا ورنہ خوب ”استقبال“ ہوتا۔ 
آمریت سے بھر پور ان شاہکاروں کی تو الگ رہی ہمارے ہاں طاقت کے نشے میں دھت ”جمہوری تماشے“ بھی کسی سے کم نہیں رہے۔ کئی تو رعونت میں فرعون کو بھی ”دعوت فکر“ دیتے دکھائی پڑتے ہیں سیاست اور نظریات کے نام پر عوام سے وہ جھوٹ بول لیتے ہیں جو ”واجب بھی نہیں ہوتے“ یعنی صبح کچھ شام کو کچھ، کواکب کی طرح بازیگر بن کر دھوکہ ہی دیتے رہتے ہیں اور اپنی اداو¿ں سے گرگٹ کو رنگ بدلنا سکھا دیتے ہیں سب کچھ طاقت کو دوام دینے کیلئے کرتے ہیں جو کسی کی نہیں ہوتی نتیجہ ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے اور بنجارہ سب کچھ لاد کر چلا جاتا ہے۔
لوگوں کے حقوق کو مال مفت تصور کرنیوالے، میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر من پسند لوگوں کے سپنے پورے کرنے والے۔ انصاف کے راستے کی دیوار بن جانے والے اور خلق خدا کو اپنے چھوٹے سے مفاد کیلئے ہمیشہ کی مشکلات کے سپرد کرنے والے آخر کیا سوچ کر اتنا ظلم کرتے ہیں؟ یقیناً وہ سوچتے ہوں گے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا وہ افسانے ہیں اور وہ قائم رہنے والی حقیقت ہیں۔
 اپنے آپ کو ہر وقت طاقت کے نشے میں مبتلا رکھنا واقعی نقصان دہ بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ نقصان دہ اپنی کمزوریوں کو نظرانداز کرنا ہوتا ہے۔ ریاست ہو یا کوئی شخص جب وہ اصل کو فراموش کرکے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تو اس کے اندر ایسا زوال جڑ پکڑ لیتا ہے جو سب کچھ مٹا کر ہی دم لیتا ہے۔ 
عثمانی ترک بہت بڑی طاقت تھے۔ یورپ کی مائیں اپنے بچوں کو ترکوں کا خوف دلا کر سونے نہیں دیتی تھیں وہ چھوٹے سے علاقے سے اٹھے جہاں وہ خود ہجرت کرکے آئے تھے اور آندھی طوفان کی طرح دنیا کے بہت بڑے حصے پر چھا گئے۔ فتوحات کرتے کرتے جب طاقت کا نشہ بے لگام ہوا تو پہلی بار 17 ویں صدی کے آخر میں یورپ کی متحدہ فوج سے شکست کھا گئے۔ ویانا کا محاصرہ اٹھا کر گھر کی راہ لینی پڑی۔ سلطان نے اپنے ”پاشا“ سے پوچھا کہ ہمارے بحری بیڑے کو دشمن کی توپوں سے کتنا بڑا شگاف پڑا ہے؟ تو پاشا نے طاقت سے مخمور ہوکر کہا کہ جتنا بڑا بھی شگاف پڑا ہے اسے تو ہم اپنے خزانے میں موجود ہیرے جواہرات سے بھی بھر سکتے ہیں کیونکہ ہم بہت طاقتور ہیں اور ہمارے خزانے ہمیشہ بھرے رہتے ہیں برنارڈ لوئس نے اپنی کتاب (What went wrong) میں لکھا ہے کہ اس بات پر جشن کا اہتمام کیا گیا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ طاقت کے نشے کو ایک طرف رکھ کر حقیقت کی آنکھوں سے اپنی شکست کا جائزہ لیتے۔ انہیں معلوم پڑ جاتا کہ شگاف کو ہیرے جواہرات سے بھرنے کی بجائے اپنی بھاری بھرکم توپوں کو دشمن جیسی ہلکی پھلکی اور جگہ بدلنے کی صلاحیت رکھنے والی توپوں سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ 
انگریز برصغیر میں عام سے تاجر بن کر آئے جو مقامی حکمرانوں کی خوشنودی میں لگے رہتے اور جھک جھک کر کورنش بجا لاکر مراعات حاصل کرتے رہتے تھے اور طاقت کے گھمنڈ میں پوری طرح رچے بسے مقامی حکمران انہیں ہاتھ کا میل سمجھ کر نوازشات کے پروانوں پر پروانے جاری کرتے رہتے تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ان ”دو ٹکے“ کے فرنگی تاجروں نے بادشاہ وقت کو اس کے ہی ملک سے نکال باہر کیا اور وہ پردیس میں اپنے آپ کو بدنصیب کہتا ہوا دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ 
کبھی کبھی جی چاہتا ہے غالب کے شعر میں ہستی کی جگہ طاقت لکھ دوں کہ ایک ہی بات ہے۔
”طاقت“ کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہء دام خیال ہے....!

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...