سنگجانی میں شو کے اختتام پر دلبر جانیوں کی بدمزگی۔
جب سب کچھ اطمینان سے چل رہا تھا‘ شکار اور شکاری دونوں خوش تھے کہ جلسہ ہو رہا ہے امن بھی ہے۔ تو پھر اچانک یہ وقت کی پابندی کے عنوان سے ایک نیا شوشہ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جنہوں نے آج سے 15 بیس سال قبل سینما گھروں میں فلم دیکھی ہو گی‘ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بعض فلموں کے اختتام پر فلم بین حضرات خاص طور پر ہال میں بیٹھے ہوئے فلم بین فلم پسند نہ آنے پر خوب شور شرابا کرتے اور کرسیاں تک توڑ دیتے تھے اور نعرے لگاتے‘ گالیاں دیتے باہر نکلتے تھے۔ گزشتہ روز ایسا ہی سین سنگجانی میں پی ٹی آئی کے شو کے آخر میں ہوتا نظر آیا۔ اچھابھلا اختتام کسی دلبر جانی کی بدولت ،تصادم‘ پتھراﺅ اور آنسوگیس کی شکل میں ہوا۔ یوں شرکائے نے واقعی جلسہ گاہ کو تماشا گاہ بنا دیا۔ اس میں قصور کس کا تھا‘ وقت آگے کرکے معاملہ ٹھنڈا رکھا جا سکتا تھا مگر ایسا نہ ہوا تو جو لوگ تصادم چاہتے تھے‘ انہوں نے آخری سین میں اپنا مطلب حاصل کرلیا۔ یوں حکومت کی نیک نامی بنتے بنتے رہ گئی۔ بڑے بڑے نامور پی ٹی آئی کے کھلاڑی پلے بیک سنگر کے طور پر موجود تھے جن میں سب سے اہم مراد سعید کا ویڈیو بیان تھا جو ان کے بقول بانی کا پیغام تھا۔حماد اظہر اچانک انٹری ڈال بیٹھے مگر شاید پنجاب کی قیادت کیلئے ابھی تک اتنی باہیں کشادہ نہیں رہیں جس کی امید تھی۔ جلسے پر بھی خیبر پی کے والوں کا رنگ چھایا رہا۔ وہ نہ ہوتے تو شاید جلسہ ہی نہ ہو پاتا۔ گنڈا پور نے کسی کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ اگر کہیں سے مراد سعید بھی دھمال ڈالتے نظر آتے تو رنگ چوکھا ہو جاتا۔ مگر ایک بات یہ بھی ہے کہ پرامن طریقے سے اگر جلسہ جلوس ہو تو سیاسی عمل کہلاتا ہے۔ اگر اس میں تشدد کا عنصر شامل ہو جائے تو گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ اسکے علاوہ کہنے کو تو یہ جلسہ بقول بیرسٹر گوہر و شبلی فراز‘ مہنگائی کے ضاتمہ اور قانون کی بالادستی کیلئے تھا‘ مگر سب مقررین نے ان دو باتوں پر کم اور اپنے بانی کی رہائی پر سارا زور دیا۔ یعنی کپتان کو رہا کرو کا مطالبہ دہرایا۔ باقی تقریریں سب کی شیخ مجیب اور ایم کیو ایم لندن والے کا چربہ تھیں۔
بلوچستان میں 63فیصد بچے سکول نہیں جاتے‘ خواندگی پر رپورٹ میں انکشاف۔
تعلیمی ترقی کے تمام دعوﺅں کی نفی کرتی اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 32 فیصد بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ معصوم بچے دکانوں‘ گیراجوں اور ہوٹلوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ اسی لئے انہیں اپنے گھر کا بڑا بھی کہا جاتا ہے۔ شاید انکے گھر والوں کو بھی علم ہے کہ 12 یا 14 سال پڑھ لکھ کر ڈگری لینے سے کیا ہوتا ہے۔ نوکری تو پھر بھی انہیں کہیں نہیں ملنی ہوتی۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان اپنی اعلیٰ ڈگریاں چولہوں میں جھونک کر ریڑھیاں لگا رہے ہیں۔ جو ذرا پیسے والے ہیں‘ وہ انسانی سمگلروں کے چنگل میں پھنس کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا ڈنکی لگاتے ہوئے پرخطر راستوں میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یوں اپنے گھر والوں کیلئے رزق تلاش کرنے والے تاریک راہوں میں رزق خاک ہو جاتے ہیں۔ اسکے باوجود ہماری ہر حکومت تعلیم پھیلاﺅ‘ بچوں کو پڑھاﺅکا مشن لے کر کروڑوں کے نہیں اربوں کے فنڈز مختص کرنے کے باوجود ابھی تک شرح خواہندگی میں نمایاں اضافہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ تعلیمی پسماندگی میں سب سے بری صورتحال بلوچستان کی ہے۔ جہاں علم دشمن سردار نواب اور دہشت گرد اول تو سکول بننے نہیں دیتے‘ اگر بن جائے تو اسے چلنے نہیں دیتے۔ لڑکیوں کی تو بات چھوڑیں‘ انہیں تو نیم خواندہ کی طرف بھی خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے اساتذہ کی بھی شدید قلت ہے جو خود نہیں پڑھتے‘ وہ بچوں کو کیا خاک پڑھائیں گے۔ آئین کے تحت 16 سال تک کے بچوں کو تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر جہاں والدین تعلیم کے فوائد سے محروم ہوں‘ وہاں حکومت کیا کریگی۔ سفارش سیاسی دباﺅ کی وجہ سے ہزاروں میٹرک پاس افراد بطور ٹیچر تعینات ہیں جو ان گھوسٹ سکولوں میں جاتے تک نہیں مگر تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں۔ اچھے اساتذہ ان دور دراز سکولوں میں خوف سے نہیں جاتے کہ واپسی کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ اب ملک میں اگر تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جا رہی ہے تو بلوچستان میں جبری تعلیم دلوانے کی مہم چلائی جائے۔ بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اگر ممکن ہو تو والدین کی مالی مدد کی جائے تاکہ یہ بچے دشمن عناصر کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔
پاکستان نے پانچویں بار ورلڈ یوتھ سکریبل چیمپئن شپ جیت لی۔
کون کہتا ہے پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے۔یہاں تو ایسے ایسے ہیرے موجود ہیں جو اپنے بل بوتے پر معاشی پریشانیوں کے باوجود عالمی سطح پر ایسے ایسے کارنامے انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ اس 16 سالہ نوجوان عفان سلمان نے یہ مقابلہ جیت کرپانچویں مرتبہ سکریبل کا عالمی ٹائٹل پاکستان کو دلوایا۔ یہ کسی ملک کی جیت کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اسی طرح ڈسک تھرو میں پاکستانی کھلاڑی حیدرعلی نے پیرا اولمپکس مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ جیتا۔ اب ہمارے حکمرانوں اور محکمہ کھیل والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سب کی ویسی ہی سرپرستی کریں جیسی ارشد ندیم کی کی گئی ہے۔ سارا خزانہ اور داد و ہش صرف ان کیلئے وقف کیوں۔ وہ تو برسر روزگار بھی ہیں‘ اسکے برعکس ہمارے کئی انٹرنیشنل کھلاڑی آج بھی اپنا سامان فروخت کرکے ادھار لے کر عالمی مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں اور کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ انکے دل پر کیا بیتتی ہوگی کہ ایک کھلاڑی کو سونے میں تولا جا رہا ہے‘ اس جیسے عالمی ایونٹس میں شریک اور کامیاب ہونیوالے باقی کھلاڑیوں کو صرف مبارکباد دیکر ٹرخایا جا رہا ہے۔ حکومت ایسی پالیسی اختیار کرے کہ سب عالمی اعزاز پانے والوں کی یکساں پذیرائی ہو ورنہ جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں گی۔ اب عالمی چیمئن عفان سلمان نے جو اعزاز حاصل کیا ہے‘ وہ تو منفرد بھی ہے۔ اس عالمی مقابلہ میں مختلف ممالک کے 138 شامل تھے۔
سندھ کو سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز دیے گئے ہیں، ترجمان۔
یہ آج کی بات نہیں، عرصہ دراز سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ کبھی پانی کی تقسیم کے حوالے سے کبھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اور کبھی صوبے کو کم فنڈ دینے کے مسئلہ پر سندھ کی حکومت نے ہمیشہ رولا ہی ڈالا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہاں پیپلزپارٹی کی نہیں، جئے سندھ جیسے نظریات رکھنے والوں کی حکومت ہے۔ جن کا کام ہی قوم پرست جماعتوں کی طرح مرکز گریز رویہ برقرار رکھنا ہے۔ بلاول ہوں یا مراد علی شاہ یا سید خورشید شاہ، ان کا لب و لہجہ وقت کی مناسبت سے موسموں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے گویا جی ایم سید تقریر کر رہے ہیں۔ اب ایک بار پھر پہلے پانی کے مسئلے پر خورشید شاہ نے آنسو بھر بھر کر تقریر کرتے ہوئے ساون بھادوں کا سماں باندھا اور اب ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے پوری سندھ حکومت کہہ رہی ہے کہ سندھ کو اس کے حصے کے ترقیاتی فنڈز نہیں مل رہے۔ پہلے محترمہ آصفہ بھٹو زرداری نے اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ سندھ کو بجلی کی سپلائی بھی کم ہے، انھوں نے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ ان کے اپنے حلقے میں 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اب خود تو وہ کراچی والے بنگلے میں یا بیرون ملک جا کر رہ سکتی ہیں مگر واقعی عوام کا تو برا حال ہوگیا جنھوں نے شاید کبھی یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی موروثی حکومت 15 سال سے زیادہ ہو چکے، کام کر رہی ہے اور اسے کوئی چیلنج بھی نہیں کرپاتا۔ آخر اس حکومت نے اپنے صوبے میں پانی اور بجلی کی فراہمی بہتر بنانے پر کام کیوں نہیں کیا۔ ورنہ خدا جھوٹ نہ بلوائے کالاباغ ڈیم کے بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ ہی بنا ہے جس کی وجہ پورے ملک کے کروڑوں عوام بجلی اور پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اگر یہ بنا ہوتا تو آج نہ پانی کی کمی ہوتی نہ بجلی کی، کسان، ہاری، مزدور، ملازم، سب خوشحال ہوتے۔ قومی خزانہ بھرا ہوتا اور چاروں صوبوں کو وافر مقدار میں فنڈز ملتے۔