رکاوٹوں کے باوجود  پی ٹی آئی کے جلسے کا انعقاد

پاکستان تحریک انصاف کے سنگجانی (راولپنڈی) میں منعقدہ پبلک جلسے کے موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے مابین تصادم کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر پتھراﺅ کیا جس سے کئی پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جبکہ پولیس نے پی ٹی آئی قائدین کی جانب سے جلسہ کے متعینہ وقت کے بعد بھی جلسہ جاری رکھنے پر کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے متعدد کارکن زخمی ہوئے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے اس جلسہ کیلئے پی ٹی آئی کو باقاعدہ اجازت دی تھی تاہم جلسہ سے ایک روز قبل کنٹینروں کے ذریعے جلسہ گاہ تک پہنچنے والے راستے بند کر دیئے گئے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکن ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص خیبر پی کے سے جلوسوں کی شکل میں جلسہ گاہ کی جانب آنا شروع ہوئے تو اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جلسے کی جگہ تبدیل کر دی گئی جو اسلام آباد سے تقریباً 35 کلو میٹر دور اور راولپنڈی کی حدود میں تھی۔ اسکے باوجود پی ٹی آئی کے کارکن رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے جلسہ گاہ تک آئے اور ردعمل میں انتظامیہ کیخلاف جارحانہ طرز عمل اختیار کیا جس کے باعث پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں میں تصادم کی نوبت آئی۔ جلسے میں پشتون لیڈر محمود خان اچکزئی اور پی ٹی آئی کے عہدیداروں بیرسٹر گوہر‘ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور‘ علی محمد خاں، اعظم سواتی‘ عالیہ حمزہ اور دوسرے لیڈران نے خطاب کیا اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی رہائی کیلئے مزاحمت کا آغاز کرنے کا عندیہ دیا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے نے حکومت کو سخت لہجے میں دھمکی دی کہ وہ دو ہفتے کے اندر اندر عمران خان کو رہا کر دے ورنہ ہم خود انہیں رہا کرالیں گے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کا اگلا جلسہ لاہور میں منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔
آئین کے تحت جلسے جلوسوں کی شکل میں اجتماع کرنا بے شک سیاسی جماعتوں کا حق ہے جن پر کوئی قدغن آئین کی متعلقہ دفعہ میں وضع کردہ پیرامیٹرز کے مطابق ہی لگائی جا سکتی ہے۔ سیاسی سرگرمیاں ہی جمہوریت کا حسن ہوتی ہیں جن پر کسی قسم کی پابندی آمرانہ طرز عمل تصور ہوتی ہیں۔ اگر کوئی جماعت پرامن طریقے سے جلسے جلوس کی شکل میں رابطہ عوام مہم چلاتی ہے تو اسکی بلاروک ٹوک اجازت ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو اس تناظر میں جلسہ کی باقاعدہ اجازت دی گئی اور یہ جلسہ منعقد بھی ہو گیا۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے ”دودھ میں مینگنیاں“ ڈالنے والا طرز عمل اختیار نہ کیا جاتا تو اس سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...