پنجاب اسمبلی : جمخانہ کی 117ایکٹرزمین ، سالانہ کرایہ 5ہزار ظلم ، غنڈ گردی نہیں چلے گی، سپیکر

لاہور  (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں گذشتہ آٹھ برس سے پرنسپلز آف پالیسی کی رپورٹس پیش نہ کرنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی  اظہار ناراضگی اس پر کہا کہ پرنسپلز آف پالیسی پر عمل درآمد کی رپورٹ نہیںآئی یہ تو آئینی بحران ہے،جمخانہ کلب پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ لاہور جمخانہ کلب کے معاملہ پر سپیشل کمیٹی بنانے جا رہے ہیں، دو ہفتہ میں جمخانہ کلب رپورٹ مرتب کرکے حکومت کو بھی بھیجی جائے گی،لاہور جمخانہ کلب پر تمام کارروائی عوام کے سامنے کی جائے گی،اشرافیہ کی غنڈہ گردی کسی صورت نہیں چل سکتی، کھیل کی ہر ایسوسی ایشن سیاست کے آمجگاہ بنی ہوئی ہے، پنجاب حکومت سپورٹس سے سیاست کو مکمل طورپر باہر نکالے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں لاہور جمخانہ کلب کے حوالے سے مزید انکشافات حکومتی و اپوزیشن ارکان کی جمخانہ کلب کی لیز پر کڑی تنقید،سپیکر ملک محمد احمد خان اشرافیہ پر برس پڑے،اور لاہور جمخانہ کلب کی ممبر شپ لینے سے انکار کر دیا، حکومتی رکن امجد علی جاوید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اشرافیہ اپنا رویہ تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں،پاکستان کے وجود کے قیام پر آج سوال اٹھ رہے ہیں، بات ایک جمخانہ کی نہیں پنجاب میں پھیلے جمخانہ کا نظام ہے جو وسائل پر قابض ہے، جو سات مرلے کی دوکان کا سات ہزار روپے کرایہ دے رہے ہیں وہ کہتے دوبارہ آکشن کروائیں،کھربوں روپے کی جائیداد پر جمخانہ بنائے جا رہے ہیں اگر اس کلاس کو عیاشیاں درکار ہیں تو اپنے لعنت پر کریں ہمارے خون وپسنہ کے پیسے پر عیاشیاں نہ کریں، پچتہر سالوں سے کھربوں روپے جو اشرافیہ کے ذمہ بنتا ہے ان سے تاوان وصول کیا جائے،سپپیکر نے صوبائی وزیرمیاں مجتبیٰ شجاع الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سن رہے ہیں کہ کیا کہا جا رہا ہے اس کا کھربوں روپے تاوان بنتا ہے،آئین پاکستان ہمیں برابری کا درس دیتاہے ادھر تو جمخانہ جو سروسز دے رہا ہے یا تو اس کا گیٹ عوام کیلئے کھول دیا جائے،جمخانہ کے پانچ ہزار روپے پر سرکاری زمین سالانہ ٹھیکے پر دے رکھی ہے،جس کی اربوں روپے قیمت ہو تو امجد علی جاوید ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ وہ تاوان لینا بنتا ہے، پارلیمانی وزیر نے مزید انکشاف کیا کہ انیس سو تیراں میں جمخانہ کلب کو سولہ سو روپے ٹھیکے روپے پر دیا گیا،جمخانہ کی زمین ایک سترہ ایکٹر سات کنال بنتی ہے، انیس سو ساٹھ سے سن دوہزار تک سولہ سو روپے تک لیز دی گئی،انیس سو چھیانوے میں سردار عارف نکئی نے اگلے پچاس سال کیلیے پانچ ہزار روپے سالانہ لیز دیدیا،پورے پنجاب میں جو جمخانہ کلب بن رہے ہیں وہ صوبائی کابینہ کی منظوری سے بن رہے ہیں،جس پر سپیکر نے کہا کہ کوئی بھی حکومت ہو وہ کیسے سرکار کی زمین کو ایسے انتہائی سستے داموں کرایہ پر دے سکتی ہے،جمخانہ کی انتظامیہ سے کروڑوں روپے کے چارجز وصول کررہی ہے،عوام کی زمین پر یہ کیسے کیاجا سکتا ہے کہ پانچ ہزار روپے کرایہ پر لے کر اس طرح سے ظلم کیا جائے،آئین و قانون بن گیا لیکن اتنی دیدہ دلیری لیکن اب اس کا کرایہ دینا پڑے گا،لاہور جمخانہ کلب کے معاملہ پر سپیشل کمیٹی بنانے جا رہے ہیں، دو ہفتہ میں جمخانہ کلب رپورٹ مرتب کرکے حکومت کو بھی بھیجی جائے گی،لاہور جمخانہ کلب پر تمام کاروائی عوام کے سامنے کی جائے گی،اشرافیہ کی غنڈہ گردی کسی صورت نہیں چل سکتی، ہم جمخانہ کلب کے ممبرشپ بھی نہیں لیں گے کسی ممبر کو ممبر شپ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، چناب کلب فیصل آباد کو بھی اس میں شامل کیاجائے گا،اپوزیشن رکن رانا آفتاب کے کہنے پر چناب کلب کو شامل کیاگیا، پارلیمانی کمیٹی دو اہم فیصلوں پر کام کرے گی،کمیٹی ایک لاہور جمخانہ کلب کے کرایوں کو دیکھے گی،دوسرا یہ دیکھا جائے گا ستر سال تک دانستہ طورپر ایسا کیوں کیاگیا،اشرافیہ کی اجارہ داری ہر صورت ختم کریں گے۔ علاوہ ازیں امن امان کی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے  اپوزیشن رکن رانا آفتاب احمد خان  نے حکومت پر سخت تنقید کی۔ صوبہ میں کون سا پولیس آفیسر ہے جس کا بچہ ایچ ای سن میں نہیں پڑھ رہا، پولیس آفیسرکلبوں کی فیس کہاں سے دے رہے ہیں، ڈیفنس میں رہائش گاہیں بنا رہے ہیں، عوام کی کون حفاظت کرے گا۔  جلسہ ہونے دیں۔ پی پی رکن شازیہ عابد نے  کہا بتایا جائے کہ آئی جی بدلا کس سے لینے کا کہہ رہے ہیں،   میرے پاس ثبوت موجود ہیں پولیس افسران زمینیں مالکان سے زبردستی لے کر فصلیں کاشت کررہے ہیں ان سے حساب لینا ہے۔پارلیمانی سیکرٹری برائے سپورٹس انس محمودکھوکھر نے بتایا کہ تحصیل رائے ونڈ میں دو سٹیڈیم ہونے کے ساتھ ساتھ سپورٹس کمپلیکس اور جیمنزیم کی سکیم شامل کر دی گئی جس کا تخمینہ 350ملین روپے ہے۔ حکومت سٹیڈیمز میں سکول کے چھٹی کے بعد بچوں کو کھیلنے کی اجازت دینے پر غور کررہی ہے۔ حکومتی رکن امجد علی جاویدنے محکمہ سپورٹس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قومی سطح کے کھلاڑی کیسے آگے آئیں گے جب بچوں کو کھیلنے کیلئے گراونڈ ہی نہیں دیں گے۔ ایوان میں انکشاف کیا گیا کہ سپورٹس کمیٹی میں کسی بھی عوامی نمائندے کو شامل نہیں کیا گیا، سپیکر نے کہا اگر عوامی نمائندگی سپورٹس کمیٹی میں نہیں ہوگی تو پھر مشکلات آئیں گی، یہی وجہ ہے کہ ہاکی فیڈریشن سیاست کی نذر ہوگئی ہے، پارلیمانی سیکرٹری نے ایوان کو یقین دلایا کہ سپورٹس کمیٹی میں عوامی نمائندے کو شامل کریں گے، سپیکر  نے محکمہ سپورٹس میں سیاسی عہدوں پر تعینات سیاستدانوں کی بھرتیوں پر غصہ میں آ گئے اور کہا کہ ارشد ندیم نے جولین پھینکی تو عزت بچ گئی،کھیل کی ہر ایسوسی ایشن سیاست کے آمجگاہ بنی ہوئی ہے، میری سے بڑی عمر کے سیاسی لوگ محکمہ سپورٹس کی مختلف ایسوسی ایشنز میں بیٹھے ہوئے ہیں، پنجاب حکومت سپورٹس سے سیاست کو مکمل طورپر باہر نکالے، ہماری سپورٹس کو سیاست نے مکمل طورپر تباہ کر دیا ہے، ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے جن کو میں جانتا ہوں ان کا سپورٹس کے بڑے عہدوں پر بیٹھنے کا کیا کام ہے، اپنی ایسوسی ایشنز کو مکمل سیاست سے پاک کر دیں۔ کسی بھی حکومت نے کبھی سپورٹس پر توجہ نہیں دی۔ اپوزیشن رکن سعدار اویس دریشک کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقہ میں پارکس بنیں گے تو بچے منفی سائیڈ پر نہیں جائیں گے،  سپیکر نے کہا کہ یہ بات بہت اہم ہے ۔ وقفہ سوالات کے احتتام پر حکومتی رکن سمیع اللہ خان نے رولز معطل کی قرارداد پیش کردی جو منظور کر لی گئی، آٹھ سال سے پرنسپلز آف پالیسی کی رپورٹس پیش نہ کرنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی آؤٹ آف کنٹرول،کہا عمل درآمد کی رپورٹ نہیں تو یہ آئینی بحران ہے، سپیکر نے وارننگ دتے ہوئے کہا کہ پرنسپلز آف پالیسی پر دو دن میں  رپورٹس تیار کرکے چئیرمین استحقاق کمیٹی کو بھیجی جائیں۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ قبل ازیں پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پنجاب اسمبلی میں امن و امان پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پی اگر حکومتی مشینری استعمال کرتے تب ہی یہ جلسہ ناکام ہوتا، پی ٹی آئی دور میں جب ن لیگ نے جلسہ کرنا ہو گا تو ہمیں این او سی دیا ہی نہیں جاتا تھا، کے پی وزیر اعلیٰ کی گفتگو نہیں تھی بلکہ انتشار کی گفتگو کی۔ اگر سرکاری ملازمین کی فوج لے کر پنجاب پر حملہ کرنے کی کوشش کریں گے تو پوری طاقت سے روکا جائے گا، اگر پولیس اہلکار دہشتْگردی کے دوران شہید ہوتے ہیں کانسٹیبل کیلئے ایک کروڑ روپے اور پانچ مرلے کا پلاٹ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سینئر آفیسر شہید ہو تو اسے پانچ کروڑ روپے کا پلاٹ دیا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے زخمی اہلکار کیلئے پانچ سے دس لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں، اب تک 585 لوگ ہنی ٹریپ کے ذریعے پھنسے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن