اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میکرو اکنامک کا استحکام معیشت کی بنیاد ہے۔ روپے کی قدر مستحکم ہو رہی ہے۔ حکومت مالی ڈسپلن قائم کرے گی۔ اخراجات کم ریونیو بڑھانے سے معیشت بہتر کی جا سکتی ہے۔ آئی ٹی کا بجٹ بڑھایا ہے۔ فری لانسرز کو مدد ملے گی۔ ملک ٹیکس دینے سے ہی چلے گا۔ کرنسی مستحکم ہے۔ افراط زر سنگل ڈیجیٹ پر آ گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں۔ برآمدات بڑھی ہیں۔ ٹیکس دینا ہو گا۔ ملک خیرات پر نہیں چل سکتا۔ آئی ایم ایف کا پروگرام آخری تب ہو گا جب ہم سٹرکچرل اصلاحات لائیں گے۔ ایف بی آر ڈیجیٹائزیشن کا عمل جاری ہے۔ گزشتہ 5 سال کے دوران لئے غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئیں۔ وزارت خزانہ کے مطابق حکومت نے 57 ارب 27 کروڑ ڈالر سے زائدہ غیر ملکی قرضے لئے۔ حکومت کے قرضے یکم جولائی 2018ء سے 30 جون 2023ء تک لئے قرضوں پر تین ارب 90 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سود کی مد میں ادا کئے گئے۔ ایف بی آر کے ملازمین کی جانب سے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے بارے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کے کل 19 ہزار 151 ملازمین میں سے 10 ہزار 102 ملازمین نے 2023 میں ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔ 8 ہزار 503 ملازمین 6 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ کی حد سے کم اجرت وصول کر رہے ہیں، ایف بی آر کے 263 افسر طویل رخصت پر ہونے کی وجہ سے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروا سکے۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ جی ایس پی پلس کے معیارات کو پورا کرنے کیلئے تمام تر اقدامات کو یقینی بنایا جا رہا ہے، پیر کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران طاہرہ اور نگزیب اور دیگر کے سوالات پر جام کمال نے ایوان کو بتایا کہ جرمنی کے ساتھ ہماری تجارت میں اضافہ ہوا ہے، طاہرہ اور نگزیب کے ایک اور سوال پر جام کمال خان نے کہاکہ پاکستانی آم کی برآمدات ہورہی ہے، ہم نے مینگو ڈپلومیسی بھی کی۔ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران اسد قیصر، شرمیلا فاروقی، شہزادہ گستاسپ خان اور دیگرکے سوالات پر احسن اقبال نے ایوان کو بتایا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پی ایس ڈی پی کا کردار محدود ہو گیا ہے، زیادہ تر امور جن کا تعلق علاقائی اور مقامی ترقی سے تھا، وہ موضوعات اور امور صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں، پہلے صوبہ کو 40 اور وفاق کو 60 فیصد حصہ ملتاتھا، اب صوبوں کو 58 اور وفاق کو 42 فیصدحصہ ملتاہے، میگا انفراسٹرکچر منصوبوں کیلئے وفاق کے پاس فنڈز کم ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دورمیں پی ایس ڈی پی کا حجم کم ہو کر 700 ارب رہ گیاتھا، پاکستان کی ترقی کی تباہی کی اگرکوئی حکومت ذمہ دارہے تو وہ یہ لوگ ہیں، یہ چورمچائے شورکے عین مطابق ردعمل دے رہے ہیں۔ 2018 ء میں ہم نے چھ فیصد پر نموکی شرح چھوڑی تھی، پاکستان کا شمار5 بڑی معیشتوں میں ہورہاتھا،پی ٹی آئی نے ایک سال میں سی پیک کو رول بیک کیا ، ترقی کی شرح کو پہلے سال ایک فیصد کردیا، ایک سال بعد اس کو منفی گروتھ میں تبدیل کردیا گیا،آخری سال سیاسی مفاد کیلئے انہوں نے درآمدات کا دروازہ کھولا اور پاکستان کا تجارتی خسارہ 50 ارب ڈالر تک پہنچایا گیا۔ قومی اسمبلی نے قومی یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی (ترمیمی) بل 2024 کی منظوری دے دی۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے تحریک پیش کی کہ قومی یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی (ترمیمی) بل 2024 زیر غور لایا جائے۔ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ 1991ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ہماری جماعت نے اہم کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے قائد نواز شریف کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ مسائل کو معاملہ فہمی سے حل کیا جائے۔ ارسا کے حوالے سے ارکان اسمبلی کے تحفظات دور ہونے چاہئیں۔ پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارسا کی طرف سے پانی کی ڈائیورژن کے فیصلے کے حوالے سے نوید قمر، نواب یوسف تالپور، شبیر علی بجارانی، میر غلام علی تالپور اور دیگر کے نکتہ ہائے اعتراضات پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا زراعت سے ہماری معیشت منسلک ہے، یہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔