شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش واپسی کے لیے ڈھاکہ میں قانونی کارروائی شروع

بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کا ٹریبونل ہمسایہ ملک بھارت سے مغز ول وزیراعظم شیخ حسینہ کی حوالگی چاہتا ہے۔ عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم پر قتل عام کا الزام ہے۔بنگلہ دیش میں حالیہ ہفتوں کے دوران ملک بھر میں طلبا کی قیادت میں ہونے والے بڑے پیمانے کے ملک گیر مظاہروں پر کنٹرول کے لیے شیخ حسینہ کی حکومت کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت نوجوان طالب علموں کی تھی۔ مظاہرے کنٹرول سے باہر ہونے کے بعد شیخ حسینہ نے 5 اگست کو اپنے عہدے سے استعفی دیدیا اور فوری طور پر ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے پڑوسی ملک بھارت فرار ہو گئیں، جس سے ان کے 15 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔بھارت کو شیخ حسینہ کا پرانا اتحادی سمجھا جاتا ہے۔بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل(ICT) کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے اتوار کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ مرکزی ملزم کے ملک سے فرار کی وجہ سے، ہم انہیں واپس لانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کریں گے۔ وی او اے کے مطابق انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل شیخ حسینہ نے ہی 2010 میں قائم کیا تھا جس کا مقصد بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کرنا اور مظالم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائیں دینا تھا۔شیخ حسینہ کی حکومت پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی  خلاف ورزیوں سیاسی مخالفین کی حراستوں اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام کا مزید کہنا تھا کہ  بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا  معاہدہ موجود ہے۔ اس معاہدے پر شخ حسینہ کی حکومت کے دوران 2013 میں دستخط کیے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ انہیں بنگلہ دیش میں قتل عام کی مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے، اس لیے ہم انہیں قانونی طور پر بنگلہ دیش واپس لانے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ اپنے خلاف مقدمے کا سامنا کر سکیں۔شیخ حسینہ کو، جن کی عمر 76 سال ہے، بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے بعد عوامی طور پر کہیں نہیں دیکھا گیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھارت میں ان کا آخری سرکاری ٹھکانہ نئی دہلی کے قریب ایک فوجی ایئر بیس میں تھا۔بھارت میں ان کی موجوگی بنگلہ دیشیوں کو مشتعل کر رہی ہے۔ ڈھاکہ شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر چکا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا دو طرفہ معاہدہ موجود ہے، لیکن اس کی ایک شق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر جرم سیاسی کردار کی نوعیت کا ہو تو حوالگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔بنگلہ دیش حکومت کے عبوری سربراہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے، جنہوں نے شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد نظم و نسق سنبھالا ہے، گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ حسینہ کو بھارت میں اپنی جلا وطنی کے دوران، اس وقت تک اپنی زبان بند رکھنی چاہیے جب تک انہیں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس نہیں لایا جاتا۔محمد یونس نے، جو اب 84 سال کے ہیں، پریس ٹرسٹ آف انڈیا نیوز ایجنسی سے کہا تھا کہ اگر بھارت حسینہ کو بنگلہ دیش میں واپسی تک اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے کہ تو اس کے لیے شرط یہ ہے کہ انہیں خاموش رہنا ہو گا۔محمد یونس کی حکومت پر عوامی دبا ہے کہ وہ شیخ حسینہ کو ملک میں واپس لائیں اور ان پر مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کا مقدمہ چلائیں۔اقوام متحدہ کی ایک ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شیخ حسینہ کی معزولی تک 600 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ یہ ابتدائی تخمینہ ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔بنگلہ دیش نے گزشتہ ماہ ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں حسینہ کے دور میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن