الازہر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی طرف سے بجلی، پانی اور گیس کی چوری کی اجازت دینے والا فتویٰ مصر میں اب بھی بڑے پیمانے پر ہنگامہ برپا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں الازہر یونیورسٹی نے قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ایجوکیشن کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر امام رمضان امام کو فوری طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کی طرف سے جاری کردہ ایک غیر معمولی فتوے کے بارے میں تحقیقات کی جاسکیں۔ اس فتوے میں فقہی نوعیت کی خلاف ورزیاں اور غلطیاں شامل تھیں جو حقیقی مذہب کی تعلیمات سے متصادم تھیں۔جامعہ الازہر کے نائب صدر ڈاکٹر محمود صدیق نے العربیہ ٹی وی پر آج پیر کے روز "انٹرایکشن" پروگرام میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ڈاکٹر امام رمضان کو کام سے معطل کیا گیا ہو بلکہ یہ تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسے 2012 میں پہلی بار تفتیش کے لیے بھیجا گیا تھا کیونکہ انہوں نے جوابی پرچے جمع نہیں کرائے۔ وہ کالج آف ایجوکیشن میں نظریے کے پروفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں اور فتویٰ دینے کے اہل نہیں ہیں۔ڈاکٹر محمود صدیق نے مزید کہا کہ اس پروفیسر کو 2019 میں پیش آنے والے مشہور واقعے میں طالب علموں کو سکھانے کے بہانے ان کی پتلون اتارنے پر مجبور کرنے کے جرم میں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
عوامی پیسے کی چوری
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے پروفیسر کو کام سے معطل کر دیا گیا تھا اور حالیہ فتویٰ کے بعد تحقیقات کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس حوالے سے اعلان کیا گیا ہے کہ الازہر کسی بھی صورت میں عوامی پیسے کی چوری کی اجازت نہیں دیتا۔ جامعہ الازہر کے نائب صدر نے کہا کہ یہ فتوی ذمہ دار نہیں اور اسلام کی تعلیمات سے دور ہے، انہوں نے مزید کہا کہ الازہر کا اس فتوے اور اس کی لغویت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دوسری طرف مصری فتویٰ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ اسلامی قانون کے مطابق ریاست کے وسائل بشمول بجلی، پانی اور گیس کے نیٹ ورکس سے مستفید ہونا حرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی ایسا کرتا ہے اسے امانت کا غدار، چوری کے حرام جرم کا مرتکب، لوگوں کا پیسہ غیر قانونی طور پر ہڑپ کرنے والا سمجھا جائے گا۔الازہر کے پروفیسر نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر ایک ویڈیو کے ذریعے ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں پانی، بجلی اور گیس کی چوری کو جائز قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرمان کا حوالہ دیا تھا۔ "ومن انتصر بعد ظلمه فأولئك ما عليهم من سبيل" یعنی جنہوں نے ظالم کے ظلم کے بعد اس سے اپنی مظلومی کا بدلہ لیا ان پر کوئی سزا نہیں ۔یاد رہے کہ ڈاکٹر امام رمضان نے 5 سال قبل مصر میں اس وقت تنازع پیدا کر دیا تھا اور انہیں تحقیقات اور معطلی کا نشانہ بنایا گیا تھا جب انہوں نے جامعہ الازہر کے دو طلبہ کو اپنے ساتھی طلبہ کے سامنے پتلون اتارنے پر مجبور کیا تھا۔