پاکستان کے معرض وجود مےں آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی بلوچی عوام مےں محرومی کا جو احساس پےدا ہونا شروع ہوگےا تھا وہ رفتہ رفتہ بلوچ نفسےات کا حصہ بن گےا۔ آنے والے وقت نے اس احساس مےں کمی کی بجائے اضافہ کےا۔ احساس محرومی اور مرکزی حکومت کی مسلسل لاپرواہی نے اس کو رفتہ رفتہ جذبہ علےحدگی مےں تبدےل کر دےا۔ بلوچ عوام نے ےہ سوچنا شروع کر دےا کہ مرکزی حکومت کو نہ بلوچ عوام سے ہمدردی ہے اور نہ وہ ان کے جائز مطالبات کو تسلےم کرنے اور ان کی تکالےف رفع کرنے مےں دلچسپی رکھتی ہے۔ بلوچستان مےں لاءاےنڈ آرڈر کی پوزےشن بے حد خراب ہے، جس کی بدولت صوبے اور وفاق کے تعلقات کشےدہ ہی قرار دیے جا سکتے ہےں۔ بلوچستان کے لوگوں کا خےال ہے کہ فرنٹئےر کور صوبے مےں اےک متوازی حکومت چلا رہی ہے۔ اےک بااثر بلوچ رہنما نے اسلام آباد حکومت پر منافقت کا الزام بھی لگاےا جو کبھی اپنے کئے گئے وعدے پورے نہےں کرتی۔ پچھلے دنوں تواتر سے اےک کے بعد اےک بلوچ رہنما (بالخصوس سےنےٹرز) نے اےسے بےان دئےے جن سے ان حضرات کی بے چےنی اور حالات کی سنگےنی دونوں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
درست ہے کہ اس وقت حکومت پاکستان کی توجہ کا مرکز ملک کے شمالی علاقہ جات مےں جاری انسرجنسی اور اس سے پےدا ہونے والے حالات سے نمٹنا ہے، جو بذاتِ خود بہت بڑے مسائل ہےں لےکن اس کا ےہ مطلب نہےں کہ ملک کو درپےش دےگر سنگےن مسائل سے چشم پوشی اختےار کی جا سکے۔ مسائل بھی اےسے جن کی سنگےنی ہر لحظہ بڑھتی جائے اور جو فوری حل کے متقاضی ہوں۔ بلوچستان مےں پاےا جانے والا احساس محرومی جس نے مرکز گرےز جذبات کو جنم دےا، حکومت کی نااہلی اور صورت حال کی سنگےنی کا ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے پےدا ہوئے اور آج جو پوزےشن ہے وہ ان حالات سے بہت مشابہت رکھتی ہے جو بنگلہ دےش بن جانے سے پہلے مشرقی پاکستان مےں پےدا ہو چکے تھے، سکولوں مےں قومی ترانے کو ترک کر دےنا، قومی پرچم کو مدرسوں اور سرکاری عمارتوں سے اتار دےنا اور کھلم کھلا آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرنا اےسی باتےں ہےں جن کا فوری حل چاہئے۔ بدقسمتی کی اےک اور بات جو بلوچستان اور بنگلہ دےش بن جانے سے پہلے مشرقی پاکستان مےں مشترک ہے وہ پنجاب مخالف جذبات (پنجاب دشمنی) ہےں۔ سابقہ مشرقی پاکستان مےں بھی ےہی کےفےت تھی۔ پنجاب کی ہر چےز سے نفرت، ےہاں تک کہ مغربی پاکستان سے جانے والے ہر شخص کو پنجابی قرار دے کر تعلقات کا تعےن کےا جاتا تھا۔ آج بلوچستان مےں وےسے ہی حالات نظر آتے ہےں۔ بلوچ اپنی محرومی اور حق تلفی کےلئے پنجاب کو موردِ الزام ٹھہراتے ہےں۔ اس کی اےک وجہ تو ےہ ہو سکتی ہے کہ آبادی کے اعتبار سے پنجاب وفاق کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اقتصادی ترقی کے لحاظ سے وفاقی اکائےوں مےں نسبتاً زےادہ خوشحال نظر آتا ہے۔ پاک فوج کا اےک بڑا حصہ بھی آبادی اور دےرےنہ رواےات کی وجہ سے پنجاب ہی سے آتا ہے۔ بلوچستان مےں چونکہ متعدد بار ملٹری اےکشن کراےا گےا جس سے بلوچ عوام کو تکلےف کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچ نےشنلسٹ رہنما اور ان کی وجہ سے بلوچ عوام بھی پنجاب کو ذمہ دار گردانتے ہےں۔ ہرچند کہ اس تمام قصہ سے پنجاب کے عوام کا کوئی تعلق نہےں۔ وہ بالکل بے گناہ اور بے قصور ہےں۔ پنجاب مخالف ذہنےت جتنی تکلےف دہ ہے اس کا خاتمہ اتنا ہی ضروری ہے۔ پنجاب کے عوام بھی آمرانہ دور مےں ڈکٹےٹرز کی پالےسےزسے اتنے ہی زچ تھے جتنے بلوچ ےا کسی اور صوبہ مےں بسنے والے ہمارے بھائی۔
اسلام آباد کو بہت سے بلوچ سوالوں کا جواب دےنا ہے، جو آسان نہےں ہو گا۔ بلوچستان نے اپنے معدنی وسائل کا بے درےغ استعمال دےکھا جس کےلئے کبھی بھی انہےں معقول معاوضہ نہےں دےا گےا۔ جس صوبہ کو وسائل کے اعتبار سے ملک کا امےر ترےن صوبہ ہونا چاہئے تھا آج سب سے غرےب اور پسماندہ ہے۔ اس صوبے مےں متعدد بار ملٹری آپرےشن کئے گئے۔ لوگوں پر تشدد روا رکھا گےا۔ بہت سے ہلاک ہوئے ان گنت لوگ غائب (disappear) کر دئےے گئے ، جن کے زندہ ےا مردہ ہونے کے متعلق کسی کو کوئی خبر نہےں۔ اسلام آباد مےں قائم ہونے والی حکومتےں طالبان سے مذاکرات مےں تو کوئی مضائقہ محسوس نہےں کرتےں لےکن بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کا آغاز غےر مناسب سمجھا گےا۔ چاہئے تو ےہ تھا کہ ان قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے ذرےعہ کم از کم ان کی تکالےف کا اندازہ تو کر لےا جاتا۔ ماضی کی زےادتےوں پر معافی اور معذرت بے معنی نظر آتی ہے۔ اگر الفاظ ٹھوس اقدامات کی شکل اختےار نہ کر سکےں تو اقتصادی ترقی کے پروگرام بے معنی ہو کے رہ جاتے ہےں۔ صوبائی خود مختاری کے وعدوں پر کون ےقےن کرے گا۔ اگر مدت گزر جانے کے بعد بھی ان مےں پےش رفت کی صورت نظر نہ آئے۔ لےکن اب تو حالات اس قدر بگڑ چکے کہ فوری اور دور رس اقدامات کے بغےر ان پر قابو پانا ممکن نہےں۔ بلوچستان لبرےشن آرمی جو افغانستان پر سووےت قبضہ کے دوران سووےت پےسہ سے معرض وجود مےں آئی تھی جس پر آج بھارت کی فےاضانہ نظر کرم ہے، ان کے سربراہ برہمداغ بگتی آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا چکے اور ےہاں تک کہہ چکے کہ وہ آزادی حاصل کرنے کےلئے بھارت اور امرےکی امداد کا خےر مقدم کرےں گے۔
آئےے دےکھےں کہ بلوچستان کہ شکاےات کےا ہےں؟ (1) سب سے پہلا مطالبہ تو بلوچ عوام کا صوبائی خود مختاری کا ہے۔ وہ خود مختاری جو دستور مےں صوبوں کو فراہم کر دی گئی۔ ےقےن ہے کہ 18وےں ترمےم کے بعد بلوچستان کے اس مطالبہ کی تشفی ہوگی (2) بلوچ عوام اپنے صوبے کے وسائل پر مکمل کنٹرول چاہتے ہےں اور ملک کے دےگر حصوں کو ان کے وسائل کی فراہمی کا معقول معاوضہ۔ بلوچستان سے ملک کے دےگر حصوں کو گےس کی فراہمی کی رائلٹی بغےر کسی رکاوٹ کے باقاعدگی سے ادا ہونی چاہئے (3) بلوچ عوام سمجھتے ہےں اور ٹھےک سمجھتے ہےں کہ قومی وسائل (divisible pool) مےں سے ان کا جائز حصہ انہیں نہےں دےا جاتا رہا (نےشنل فنانس کمےشن کے ساتوےں اےوارڈ مےں قومی وسائل مےں بلوچستان کے حصہ مےں کچھ اضافہ کر کے اس مطالبہ کو بھی کسی حد تک تسلےم کےا گےا ہے) ۔ ےہ تقسےم اگر آبادی کی بنےاد پر ہوتی رہے تو بلوچستان کو کبھی بھی اس کا حق نہےں ملے گا۔ مختلف فارمولوں پر غور ہونا چاہئے اور مالےاتی کمےشن اےسا انتظام کرے جو سب کےلئے قابل قبول ہو (4) بلوچ عوام ےہ بھی چاہتے ہےں کہ ان کے صوبے سے فرنٹئےر کانسٹےبلری کا اثر رسوخ ختم کےا جائے۔کانسٹےبلری کی چےک پوسٹس ختم کی جائےں۔ صوبائی حکومت اپنے معاملات چلانے مےں خود مختار ہو (صوبہ کے وزےر اعلیٰ نے اپنے اےک حالےہ بےان مےں تسلےم کےا کہ وہ معاملات چلانے مےں خود مختار نہےں ہےں)۔ (5)گوادر کی بندرگاہ سے آمدنی مےں بلوچستان کو معقول حصہ دےا جائے۔ اس علاقہ مےں ملازمتوں مےں بلوچستان کا حق فائق سمجھا جائے (6) جو لوگ غائب کر دئےے گئے ہےں ےا غائب ہو گئے ہےں انہےں فوری طورپربازےاب کراےا جائے۔ ظاہرہے ان مطالبات کے تسلےم کئے جانے مےں کوئی قباحت نہےں ہونی چاہئے۔
لوگوں کے اچانک غائب ہو جانے کا سلسلہ ےوں تو بلوچستان مےں عرصہ سے چلا آتا ہے۔ اب ان لاپتہ ہونے والے اشخاص کی مےتےں منظر عام پر نظر آنے لگی ہےں، جو ظاہر کرتی ہےں کہ اچانک گمشدگی اور پھر مےتوں کا پُراسرارطرےق سے منظر عام پر ظاہر ہونا اس ”جنگ“کا حصہ ہے جو بلوچستان مےں آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے والے قوم پرستوں اور اےجنسےز کے درمےان جاری ہے۔ علےحدگی پسند لوگ بھی قتل و غارت مےں شرےک ہےں۔ ےہ لوگ سرکاری حکام پر، غےر سرکاری بلوچ آباد کاروں پر اور پبلک انفرا سٹرکچر پر حملے کرتے ہےں۔ حالےہ منظر عام پر آنے والے افراد (کی لاشوں) کی پارٹی وابستگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہےں ہلاک کرنے والے علےحدگی پسند ےا مرکز گرےز قوم پرست بلوچ نہےں بلکہ سےکورٹی اےجنسےز ہےں۔ حالےہ دنوں مےں بلوچستان مےں انسرجنسی مےں اضافہ ہوا ہے۔ جےسا کہ گوادر مےں F.W.Oکے اےک کےمپ پر علےحدگی پسندوں کے حملہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس حملہ مےں کےمپ مےں کام کرنے والے دس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ توقع تھی کہ آغاز حقوق بلوچستان پےکےج عوام کی شکاےات اور تکالےف کو کم کر سکے گا لےکن پےکےج کے عمل درآمد کی رفتار بہت سست ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حل نہےں ہو سکے۔ 18وےں ترمےم سے خود مختاری مےں اضافہ، N.F.C اےوارڈ مےں قومی وسائل مےں بلوچستان کے حصہ کا اضافہ، اس کے علاوہ پاک فوج کی طرف سے لئے گئے مثبت اقدامات جن مےں بلوچ نوجوانوں کی فوج مےں بھرتی اور فوج کی طرف سے کچھ تعلےمی اداروں کے قےام وغےرہ شامل ہےں۔ مثبت اقدامات اپنی جگہ لےکن ان سے خاطر خواہ فائدہ اس وقت تک نہےں ہو گا جب تک سےکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختےارات کم کر کے سول انتظامےہ کو با اختےار نہےں بناےا جاتا۔ بلوچ عوام ےہ پوچھنے مےں حق بجانب ہےں کہ حکومت نے ان کی شکاےات دور کرنے مےں کےا اقدامات کئے ہےں۔ حکومت پاکستان کو بلوچستان کے تمام زاویہ نگاہ کے لوگوں سے مذاکرات فوری طور پر شروع کر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی، مزید کی گنجائش بالکل نہیں۔
درست ہے کہ اس وقت حکومت پاکستان کی توجہ کا مرکز ملک کے شمالی علاقہ جات مےں جاری انسرجنسی اور اس سے پےدا ہونے والے حالات سے نمٹنا ہے، جو بذاتِ خود بہت بڑے مسائل ہےں لےکن اس کا ےہ مطلب نہےں کہ ملک کو درپےش دےگر سنگےن مسائل سے چشم پوشی اختےار کی جا سکے۔ مسائل بھی اےسے جن کی سنگےنی ہر لحظہ بڑھتی جائے اور جو فوری حل کے متقاضی ہوں۔ بلوچستان مےں پاےا جانے والا احساس محرومی جس نے مرکز گرےز جذبات کو جنم دےا، حکومت کی نااہلی اور صورت حال کی سنگےنی کا ادراک نہ رکھنے کی وجہ سے پےدا ہوئے اور آج جو پوزےشن ہے وہ ان حالات سے بہت مشابہت رکھتی ہے جو بنگلہ دےش بن جانے سے پہلے مشرقی پاکستان مےں پےدا ہو چکے تھے، سکولوں مےں قومی ترانے کو ترک کر دےنا، قومی پرچم کو مدرسوں اور سرکاری عمارتوں سے اتار دےنا اور کھلم کھلا آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرنا اےسی باتےں ہےں جن کا فوری حل چاہئے۔ بدقسمتی کی اےک اور بات جو بلوچستان اور بنگلہ دےش بن جانے سے پہلے مشرقی پاکستان مےں مشترک ہے وہ پنجاب مخالف جذبات (پنجاب دشمنی) ہےں۔ سابقہ مشرقی پاکستان مےں بھی ےہی کےفےت تھی۔ پنجاب کی ہر چےز سے نفرت، ےہاں تک کہ مغربی پاکستان سے جانے والے ہر شخص کو پنجابی قرار دے کر تعلقات کا تعےن کےا جاتا تھا۔ آج بلوچستان مےں وےسے ہی حالات نظر آتے ہےں۔ بلوچ اپنی محرومی اور حق تلفی کےلئے پنجاب کو موردِ الزام ٹھہراتے ہےں۔ اس کی اےک وجہ تو ےہ ہو سکتی ہے کہ آبادی کے اعتبار سے پنجاب وفاق کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اقتصادی ترقی کے لحاظ سے وفاقی اکائےوں مےں نسبتاً زےادہ خوشحال نظر آتا ہے۔ پاک فوج کا اےک بڑا حصہ بھی آبادی اور دےرےنہ رواےات کی وجہ سے پنجاب ہی سے آتا ہے۔ بلوچستان مےں چونکہ متعدد بار ملٹری اےکشن کراےا گےا جس سے بلوچ عوام کو تکلےف کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچ نےشنلسٹ رہنما اور ان کی وجہ سے بلوچ عوام بھی پنجاب کو ذمہ دار گردانتے ہےں۔ ہرچند کہ اس تمام قصہ سے پنجاب کے عوام کا کوئی تعلق نہےں۔ وہ بالکل بے گناہ اور بے قصور ہےں۔ پنجاب مخالف ذہنےت جتنی تکلےف دہ ہے اس کا خاتمہ اتنا ہی ضروری ہے۔ پنجاب کے عوام بھی آمرانہ دور مےں ڈکٹےٹرز کی پالےسےزسے اتنے ہی زچ تھے جتنے بلوچ ےا کسی اور صوبہ مےں بسنے والے ہمارے بھائی۔
اسلام آباد کو بہت سے بلوچ سوالوں کا جواب دےنا ہے، جو آسان نہےں ہو گا۔ بلوچستان نے اپنے معدنی وسائل کا بے درےغ استعمال دےکھا جس کےلئے کبھی بھی انہےں معقول معاوضہ نہےں دےا گےا۔ جس صوبہ کو وسائل کے اعتبار سے ملک کا امےر ترےن صوبہ ہونا چاہئے تھا آج سب سے غرےب اور پسماندہ ہے۔ اس صوبے مےں متعدد بار ملٹری آپرےشن کئے گئے۔ لوگوں پر تشدد روا رکھا گےا۔ بہت سے ہلاک ہوئے ان گنت لوگ غائب (disappear) کر دئےے گئے ، جن کے زندہ ےا مردہ ہونے کے متعلق کسی کو کوئی خبر نہےں۔ اسلام آباد مےں قائم ہونے والی حکومتےں طالبان سے مذاکرات مےں تو کوئی مضائقہ محسوس نہےں کرتےں لےکن بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کا آغاز غےر مناسب سمجھا گےا۔ چاہئے تو ےہ تھا کہ ان قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے ذرےعہ کم از کم ان کی تکالےف کا اندازہ تو کر لےا جاتا۔ ماضی کی زےادتےوں پر معافی اور معذرت بے معنی نظر آتی ہے۔ اگر الفاظ ٹھوس اقدامات کی شکل اختےار نہ کر سکےں تو اقتصادی ترقی کے پروگرام بے معنی ہو کے رہ جاتے ہےں۔ صوبائی خود مختاری کے وعدوں پر کون ےقےن کرے گا۔ اگر مدت گزر جانے کے بعد بھی ان مےں پےش رفت کی صورت نظر نہ آئے۔ لےکن اب تو حالات اس قدر بگڑ چکے کہ فوری اور دور رس اقدامات کے بغےر ان پر قابو پانا ممکن نہےں۔ بلوچستان لبرےشن آرمی جو افغانستان پر سووےت قبضہ کے دوران سووےت پےسہ سے معرض وجود مےں آئی تھی جس پر آج بھارت کی فےاضانہ نظر کرم ہے، ان کے سربراہ برہمداغ بگتی آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا چکے اور ےہاں تک کہہ چکے کہ وہ آزادی حاصل کرنے کےلئے بھارت اور امرےکی امداد کا خےر مقدم کرےں گے۔
آئےے دےکھےں کہ بلوچستان کہ شکاےات کےا ہےں؟ (1) سب سے پہلا مطالبہ تو بلوچ عوام کا صوبائی خود مختاری کا ہے۔ وہ خود مختاری جو دستور مےں صوبوں کو فراہم کر دی گئی۔ ےقےن ہے کہ 18وےں ترمےم کے بعد بلوچستان کے اس مطالبہ کی تشفی ہوگی (2) بلوچ عوام اپنے صوبے کے وسائل پر مکمل کنٹرول چاہتے ہےں اور ملک کے دےگر حصوں کو ان کے وسائل کی فراہمی کا معقول معاوضہ۔ بلوچستان سے ملک کے دےگر حصوں کو گےس کی فراہمی کی رائلٹی بغےر کسی رکاوٹ کے باقاعدگی سے ادا ہونی چاہئے (3) بلوچ عوام سمجھتے ہےں اور ٹھےک سمجھتے ہےں کہ قومی وسائل (divisible pool) مےں سے ان کا جائز حصہ انہیں نہےں دےا جاتا رہا (نےشنل فنانس کمےشن کے ساتوےں اےوارڈ مےں قومی وسائل مےں بلوچستان کے حصہ مےں کچھ اضافہ کر کے اس مطالبہ کو بھی کسی حد تک تسلےم کےا گےا ہے) ۔ ےہ تقسےم اگر آبادی کی بنےاد پر ہوتی رہے تو بلوچستان کو کبھی بھی اس کا حق نہےں ملے گا۔ مختلف فارمولوں پر غور ہونا چاہئے اور مالےاتی کمےشن اےسا انتظام کرے جو سب کےلئے قابل قبول ہو (4) بلوچ عوام ےہ بھی چاہتے ہےں کہ ان کے صوبے سے فرنٹئےر کانسٹےبلری کا اثر رسوخ ختم کےا جائے۔کانسٹےبلری کی چےک پوسٹس ختم کی جائےں۔ صوبائی حکومت اپنے معاملات چلانے مےں خود مختار ہو (صوبہ کے وزےر اعلیٰ نے اپنے اےک حالےہ بےان مےں تسلےم کےا کہ وہ معاملات چلانے مےں خود مختار نہےں ہےں)۔ (5)گوادر کی بندرگاہ سے آمدنی مےں بلوچستان کو معقول حصہ دےا جائے۔ اس علاقہ مےں ملازمتوں مےں بلوچستان کا حق فائق سمجھا جائے (6) جو لوگ غائب کر دئےے گئے ہےں ےا غائب ہو گئے ہےں انہےں فوری طورپربازےاب کراےا جائے۔ ظاہرہے ان مطالبات کے تسلےم کئے جانے مےں کوئی قباحت نہےں ہونی چاہئے۔
لوگوں کے اچانک غائب ہو جانے کا سلسلہ ےوں تو بلوچستان مےں عرصہ سے چلا آتا ہے۔ اب ان لاپتہ ہونے والے اشخاص کی مےتےں منظر عام پر نظر آنے لگی ہےں، جو ظاہر کرتی ہےں کہ اچانک گمشدگی اور پھر مےتوں کا پُراسرارطرےق سے منظر عام پر ظاہر ہونا اس ”جنگ“کا حصہ ہے جو بلوچستان مےں آزاد بلوچستان کا نعرہ لگانے والے قوم پرستوں اور اےجنسےز کے درمےان جاری ہے۔ علےحدگی پسند لوگ بھی قتل و غارت مےں شرےک ہےں۔ ےہ لوگ سرکاری حکام پر، غےر سرکاری بلوچ آباد کاروں پر اور پبلک انفرا سٹرکچر پر حملے کرتے ہےں۔ حالےہ منظر عام پر آنے والے افراد (کی لاشوں) کی پارٹی وابستگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہےں ہلاک کرنے والے علےحدگی پسند ےا مرکز گرےز قوم پرست بلوچ نہےں بلکہ سےکورٹی اےجنسےز ہےں۔ حالےہ دنوں مےں بلوچستان مےں انسرجنسی مےں اضافہ ہوا ہے۔ جےسا کہ گوادر مےں F.W.Oکے اےک کےمپ پر علےحدگی پسندوں کے حملہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس حملہ مےں کےمپ مےں کام کرنے والے دس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ توقع تھی کہ آغاز حقوق بلوچستان پےکےج عوام کی شکاےات اور تکالےف کو کم کر سکے گا لےکن پےکےج کے عمل درآمد کی رفتار بہت سست ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حل نہےں ہو سکے۔ 18وےں ترمےم سے خود مختاری مےں اضافہ، N.F.C اےوارڈ مےں قومی وسائل مےں بلوچستان کے حصہ کا اضافہ، اس کے علاوہ پاک فوج کی طرف سے لئے گئے مثبت اقدامات جن مےں بلوچ نوجوانوں کی فوج مےں بھرتی اور فوج کی طرف سے کچھ تعلےمی اداروں کے قےام وغےرہ شامل ہےں۔ مثبت اقدامات اپنی جگہ لےکن ان سے خاطر خواہ فائدہ اس وقت تک نہےں ہو گا جب تک سےکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختےارات کم کر کے سول انتظامےہ کو با اختےار نہےں بناےا جاتا۔ بلوچ عوام ےہ پوچھنے مےں حق بجانب ہےں کہ حکومت نے ان کی شکاےات دور کرنے مےں کےا اقدامات کئے ہےں۔ حکومت پاکستان کو بلوچستان کے تمام زاویہ نگاہ کے لوگوں سے مذاکرات فوری طور پر شروع کر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی، مزید کی گنجائش بالکل نہیں۔