انتخابی اخراجات کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار عابد منٹو نے کہا کہ انتخابی ريليوں اور جلسوں پر لاکھوں روپے خرچ کيے جاتے ہيں،بعض اميدواروں کا مقصد ووٹر تک پہنچنا نہيں بلکہ دولت کی نمائش ہوتا ہے. عابد حسن منٹو نے کہا کہ ان کی درخواست کا مقصد دولت کی نمائش کو روکنا ہے۔ جس پر چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ جلسے سے عوام تک پيغام پہنچانا اميدوار کا حق ہے،ملک ميں خواندگی کی شرح بہت کم ہے، جب تک معاشرہ تعليم يافتہ نہيں ہوگا ،مسائل حل نہيں ہونگے۔ دوسری جانب وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیاہے جس میں وفاق نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انتخابی اخراجات سےمتعلق قانون موجودہے جس میں ترمیم کی ضرورت نہیں۔ موجودہ قانون پر نظر ثانی کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے جبکہ انتخابی کلچرتبدیل کرناعدالت کانہیں اسٹیک ہولڈرزکاکام ہے۔ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ انتخابی مہم پر پابندی امیدواروں کی حق تلفی کے مترادف ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابی مہم اڑتالیس گھنٹے پہلے ختم ہوجاتی ہے۔ امیدواروں کا پولنگ کے روز انتخابی کيمپ لگانا خلاف قانون ہے جس کا الیکشن کمیشن نے کبھی نوٹس نہیں لیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ريمارکس دیئے کہ شفاف اليکشن کرانا اليکشن کميشن کی ذمہ داری ہے۔ عابد حسن منٹونے دلائل دیئے کہ باشعور سیاسی طبقہ انتخابی کلچر کو تبدیل کرنا چاہتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ شخصیات کو ووٹ دینے کا کلچر موجود ہے۔ بھٹو کے نام پر بے شمار لوگ اب بھی ووٹ لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے عابد حسن منٹو کو کل آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔