پارٹی ٹکٹ کیلئے فیس سے سیاسی جماعتوں کو کروڑوں کی آمدن، پیپلز پارٹی 37 کروڑ کی آمدنی کیساتھ پہلے، مسلم لیگ ن 24 کروڑ کیساتھ دوسرے اور ق لیگ 13کروڑ آمدنی کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
ملک کے حالات کیسے بھی ہوں سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جہاں مندا کم ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں انکی گڈی چڑھی رہتی ہے۔ حکمران ہیں تو قومی خزانہ اور اپوزیشن میں ہیں تو ترقیاتی فنڈز کی لوٹ مار ہوتی ہے اور کچھ عرصہ سے تو بھتہ خوری بھی ذرائع آمدن میں شامل ہو گئی ہے، ویسے بھی کالا دھن رکھنے والے کمانے والے سب ہی اپنی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کرتے رہتے ہیں۔ اب الیکشن کو ہی دیکھ لیں کس طرح یہ بھی کمائی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کیلئے ہر جماعت کو ہزاروں درخواستیں ملی ہیں جن کے ساتھ کہیں 40، کہیں 20 اور کہیں 10 ہزار روپے فیس کی شکل میں جمع کرائے جاتے ہیں۔ ٹکٹ تو چند سو خوش قسمت افراد کو ہی ملے گا مگر ہر پارٹی کو ٹکٹ کی درخواستوں کے نام پر کروڑوں کو آمدنی ہو گئی اور پھر ٹکٹ ملنے کی صورت میں اس خوش نصیب امیدوار نے مزید 2 کروڑ روپے پارٹی فنڈ میں بھی جمع کرانے ہیں۔ سچ کہتے ہیں .... ع
”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا“
یہ دیکھ کر لوگ بالکل درست کہتے ہیں کہ سیاست بھی اب کاروبار بن گئی ہے صرف پیسے والے اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ الیکشن میں بھی وہی آ سکتا ہے جو لاکھوں نہیں کروڑوں میں اخراجات کر سکتا ہو۔ ظاہر ہے ”رزق حلال“ کمانے والا تو الیکشن اخراجات برداشت ہی نہیں کر سکتا یہ سارا کام ”صرف اوپر کی آمدنی“ والے ہی کر سکتے ہیں اور جب یہ لوگ اسمبلیوں میں آتے ہیں تو کروڑوں کا خرچہ اربوں روپوں کی شکل میں ملکی خزانہ اور عوام کے ٹیکسوں سے وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور تمام رقم بمعہ سود وصول کرتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ریلوے لائن پر کھیلتی 3 سالہ بچی کو بچانے کی کوشش میں بیٹی سمیت باپ بھی ٹرین کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔
ہمارے معاشرے میں جہاں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہو انکی پیدائش پر سوگ طاری ہوتا ہو، انہیں بیٹوں سے کمتر درجہ دیا جاتا ہو، آج بھی اگر ایسے واقعات پیش آتے ہوں تو ہمارا ایقان بڑھ جاتا ہے کہ ابھی محبت کا سچا جذبہ مکمل طور پر ہمارے معاشرے سے ختم نہیں ہوا۔ آج بھی بیٹیوں سے محبت کرنے والے زندہ ہیں جن کی بدولت یہ معاشرہ ہنستا مسکراتا ہے۔ یہ وہ ازلی جذبہ ہے جس کی وجہ سے خالق نے یہ کائنات تشکیل دی اور یہ سورج، چاند ستارے، زمین آسمان اور سب سے بڑھ کر خود انسانوں کو تخلیق کیا۔ یہ رشتے ناطے یہ دوستیاں یہ سب ایسی محبت کی ادنیٰ سی کرشمہ سازی ہے کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ....
محبت کے دم سے یہ دنیا حُسین ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
والدین خود مشقت کی چکی میں پس کر اولاد کی پرورش کرتے ہیں تو اسکے پیچھے یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ یہ کوئی فلمی رومانس یا کتابی عشق نہیں یہ لوح ازل پر لکھی وہ حقیقت ہے کہ اسکے بغیر یہ کائنات برقرار نہیں رہ سکتی۔ آج ایک اور محبت کرنیوالے باپ نے قربانی دیکر اپنی بیٹی سے محبت کو امر کر دیا اور سچ بھی یہی ہے کہ جو لوگ دوسرے کیلئے جان دیتے ہیں وہی لوگ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ یہ سبق ہے ان ناسمجھ اور محبت سے بے بہرہ والدین کیلئے جو بیٹیوں سے ناخوش ہیں انہیں گھر بار، تعلیم، جائیداد اور سب سے بڑھ کر محبت سے بھی محروم رکھتے ہیں اور ہزارہا مقامات پر انہیں جھوٹے، نام و نمود اور غیرت کے نام پر کبھی ”ونی“ کیا جاتا ہے اور کبھی ”کاروکاری“ قرار دیکر قتل کیا جاتا ہے۔ کاش وہ لوگ اس واقعہ سے سبق حاصل کریں اور یاد رکھیں کہ ہمارے رسول نبی رحمة کی بھی چار بیٹیاں تھیں، ہم جو اپنی ماﺅں سے شدید محبت کرتے ہیں وہ کبھی کسی کی بیٹیاں ہیں تو پھر اپنی بیٹیوں سے نفرت کیوں، یہ دوہرا معیار ہمیں چھوڑنا ہو گا اور بیٹوں کی طرح بیٹیوں سے بھی پیار کرنا ہو گا تاکہ ہماری بیٹیاں فخر سے کہہ سکیں ....
ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
کراچی سے 150 اونٹ چارٹرڈ طیارے سے دبئی منتقل۔ کسی ادارے سے کلیئرنس نہیں لی گئی ۔
یہ خبر خود ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ خلیجی ممالک میں جہاں صدیوں سے عربوں کی زندگی خیمہ اور اونٹ کے گرد گھومتی تھی جیسے جیسے تیل کی بدولت ڈالروں کی بہار آئی تو خیمہ کب کے سمیٹے جا چکے، اب تو ”برج الخلیفہ“ اور ”دبئی ٹاور“ جیسی بامِ فلک کو چُھونے والی عمارات نے خلیجی ممالک کا حلیہ ہی بدل دیا ہے۔ اونٹ کی جگہ عالیشان ہنڈا، سوزوکی، پراڈو، رولز رائس اور بی ایم ڈبلیو جیسی گاڑیوں نے لے لیا ہے۔ ریگستان کے جہاز کی بجائے اب وہاں بوئنگ طیارے فضا میں میں کلانچے بھرتے ہیں ایسے میں عربوں کو یکایک کیسے اونٹوں کی آ گئی کہ انہیں بیرون ملک سے منگوانے کی نوبت آ گئی۔ ایسے موقع پر تو اردو کی کہاوت ”الٹے بانس بریلی کے“ کی یاد آتی ہے۔ کبھی خود عرب ممالک میں اونٹوں کے میلے لگتے تھے مگر آج وہ اونٹ سمگل کرا رہے ہیں اور وہ بھی بائی ایئر۔ اسکی تین وجوہات ہو سکتی ہیں ایک یا تو وہاں اونٹوں کی قلت ہو گئی ہے یا ان اعلیٰ نسلی اونٹوں کی افزائش نسل کی جانی ہے یا پھر آخری وجہ یہ ہے کہ انہیں اونٹ ریس میں استعمال کیا جانا ہے جسکی وجہ سے انہیں نہایت احترام کیساتھ طیارے میں لے جایا گیا ہے۔ بقول شاعر ....
آج کل ان کو بہت ہے میری خاطر منظور
یا میری یا میرے دشمن کی قضا آئی ہے
ابھی اصل وجہ ہمیں معلوم نہیں مگر تعجب ہے کہ پہلے پاکستان سے کمسن ”جوکی بچے“ بھرتی کر کے سمگل کئے جاتے تھے اور اس وحشیانہ اونٹ ریس سے درجنوں ”جوکی بچے“ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے شور پر یہ سلسلہ تو تھم چکا ہے اب دیکھنا ہے کہ بنا کسی ادارے کی کلیئرنس کے اتنے اونٹ کس طرح کس کی منظوری سے بنا کسی خرچے کے دبئی چلے گئے۔ کون ایکشن لیتا ہے؟