62-63 کیس : کیسے پتہ چلے گا امیدوار سکروٹنی کے دوران سچ کہہ رہا ہے : ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس اعجازالاحسن،مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ اور مسٹر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل فل بنچ نے آئین کے آرٹیکل62 اور63 کے مطابق امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال سے متعلق دائر درخواستوں میں عدالتی معاونین اورفریقین کے وکلاءکو مزید بحث کے لئے طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آج11اپریل تک ملتوی کر دی۔ عدالتی معاون شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو بنیاد بنا کر امیدواروں کی ذاتی زندگیوں کو زیر بحث نہیں لایاجا سکتا۔امیدواروں سے ان کے انتخابی عمل اور دیگر اداروں کی دستاویزات کی بنیاد پر ہی سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔اس حوالے سے امیدوار کا بیان حلفی جمع کرانا اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے سمری انکوائری کے ذریعے اطمینان کر لینا کافی ہے۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے قرار دیا کہ ریٹرننگ افسر کے پاس کونسا ایسا سرٹیفیکیٹ ہے کہ امیدوار با کردار نظر آئے۔ جسٹس اعجاز ا لاحسن نے کہا کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ امیدوار سکروٹنی کے دوران جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔اگر کوئی امیدوار غلط بیان حلفی جمع کروا دے تو اس کو جانچنے کا کیا میعار ہے۔اس بارے عدالت کی معاونت کی جائے۔ عدالتی معاون بلال منٹو نے کہا کہ ملک میں سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری نہیں رہا۔ آنے والے آمروں نے آئین کی اصل شکل کو بگاڑ ڈالا اور اپنی مرضی کی شقیں شامل کیں۔انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کو آئین کے کسی بھی آرٹیکل کی تشریح کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔مسٹرجسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ ریٹرننگ افسران کو سمری انکوائری کرنے کا کس حد تک اختیار حاصل ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ پہلے ہونا چاہئیے تھا اب بہت دیر ہو چکی۔عدالتی معاون شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر کسی امیدوار کے خلاف ثبوت نہیں تو وہ اہل تصور ہو گا۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا اس مقدمے کا فیصلہ ہونا چاہئیے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ اگر امیدوار سے نماز کا سوال کیا جائے اور امیدوار کہہ دے کہ وہ نماز نہیں پڑھتا تو ایسے میں ریٹرننگ آفیسر کو کیا فیصلہ کرنا چاہئیے۔ہمیں ایسے ہی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔
ہائیکورٹ 62، 63

ای پیپر دی نیشن