خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت جس سرعت کے ساتھ اپنے اراکین کے مشاہروں میں اضافہ کر بیٹھی ہے اس نے ملک بھر میں عوامی سطح پر بے چینی اور عدم اطمینان کی لہر دوڑا دی ہے۔ کیا عمران خان کی روک ٹوک اور ’’مداخلت بے جا‘‘ بھی صوبائی حکومت کو اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ اقدام سے نہ روک پائی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اپنی صوبائی حکومت کو اس کار سیاہ سے روک بھی دیتے تو خود انہیں کون ان کی اپنی بد حواسیوں سے روکے گا۔ کہ ان کی اپنی کہہ مکرنیاں بھی ملکی سیاست کو کوئی کم آلودہ نہیں کر رہیں۔ ہمارے ملک کا نظام اس قدر پیوست زدہ ہے کہ یہاں صرف نام بدلتا ہے کام اور نظام نہیں اس نظام بد میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں اور بیوروکریسی (سول اور آرمڈ) کو عوام کا استعمال کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ جو حکومت میں صرف نام بدلتے ہیں کام اور نظام وہی رہتا ہے اور عوام بے حسی کی مجسم تصویر بنے سب کچھ برداشت کرتے ہیں ہماری اسمبلیوں میں بارہا یہ تماشہ ہوا ہے کہ باوجود آپس کے سیاسی اور نظریاتی اختلاف کے اراکین نے ملی بھگت کر کے اپنے مشاہروں میں بے جا اضافہ کر لیا حکمران طبقے کا شاید یہ مانتا ہے کہ اس ہوش ربا مہنگائی میں وہ پرانی تنخواہ پر کام نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا گزارہ مشکل ہے۔ یہ چونکہ زود حس طبقہ ہے لہذا مہنگائی ، بیماری ، ڈر اور خوف سے جلد متاثر ہو جاتا ہے جب کہ عوام کو وہ ایک بے حس ہجوم سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اس لئے عوام بیچارے پرانی تنخواہ پر کام کرتے ہیں اور خواہ مخواہ آتے چلے جاتے ہیں حکمرانوں کا اولین فرض عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے لیکن یہاں ہمارے حکمرانوں کو اپنی ضروریات اور اپنے حقوق کے حصول کو یقینی بنانے ہی سے فرصت نہیں ملتی تو عوام کی طرف کیا متوجہ ہوں گے۔ ہماری حکمران کلاس چونکہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں سول اور آرمڈ بیوروکریسی پر مشتمل ہوتی ہے لہذا آپ ان کے گھروں اور دفاتر کو ایک نظر دیکھیں تو شبہ ہو گا کہ یہ لوگ کاروبار مملکت چلانے نہیں بلکہ کسی ہیبت ناک دشمن سے خوف زدہ ہو کر قلعہ بند ہو گئے ہیں اور ان کے اردگرد اینٹ پتھر کی دیواریں نہیں بلکہ ان کے اندر کے خوف اور ڈر ایستادہ ہے جب کہ عوام کو انہوں نے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے ان ظالموں کا بس نہیں چلتا وگرنہ یہ لوگوں کو اوپر نیچے کھڑا کر کے اپنے گرد ایک اور حفاظتی حصار قائم کر لیں یہ خوف دراصل حکمرانوں کی اپنی بدمعاشیوں اور بدقماشیوں سے نمو پاتا ہے ان کو ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں وہ اپنی ہی کرتوتوں کی زد میں نہ آ جائیں۔ اب طالبان سے ہونے والے حالیہ مذاکرات کو ہی لیجئیے بے شک ہر مسئلے کا حتمی حل مذاکرات ہی ہوتے ہیں تاہم یہ ابن الوقت حکمران، خوف اور دہشت کی علامت طالبان کے دروازے تک اس لئے جا پہنچے کہ انہوں انہیں ذاتی طور پر ڈرایا اور دھمکایا تھا جو حکومت عوام کو روٹی، روزگار، دوائی اور تحفظ نہ دے سکے اس کے قائم رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ سرکاری اداروں اور ہسپتالوں میں لوگوں پر کیا گزرتی ہے اس کا تصور ہی ہوش ربا ہے۔ جب تک خود جاگیرداروں، سرمایہ داروں، بیورو کریسی اور حکمران طبقے کو نکیل ڈالنے کے لئے عوام متحد نہیں ہو جاتے ان کی اس ظالمانہ اور استحصالی نظام سے جان نہیں چھوٹے گی۔ خود کو حد درجہ محفوظ بنائے اور مالی مراعات سے مالا مال کرنے والی حکمرانوں کی یہ ظالمانہ، غیر منصفانہ پھرتیاں اور اندھا دھند چیرہ دستیاں کہیں کسی نرم یا گرم انقلاب بروزن بغاوت کو تو راستہ نہیں دکھا رہیں؟ جو جلد یا بدیر پر طور یقینی ہے۔