برصغیر پاک و ہند میں نعتیہ ادب پر سیمینار

Apr 11, 2014

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
hmujeeb786@hotmail.com
’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ پوری دنیا میں اسلامی ادب کے فروغ اور مسلم ادیبوں کا متحد و منظم   پلیٹ فارم پر  ہے ۔ برصغیر کی  عظیم علمی و ادبی شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ المعروف مولانا علی میاںؒ نے اس کی بنیاد رکھی۔  آپ ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ سمیت درجنوں تنظیموں اور اداروں کے ممبر و سرپرست تھے۔ مولانا سید ابوالحسن ندویؒ نے سب سے پہلے اسلامی ادیبوں کی تنظیم کے قیام کا تصور ’’جامعہ دمشق‘‘ شام میں دنیا بھر سے آئے ہوئے عربی ادباء اور فضلاء کے سامنے پیش کیا ۔ بعد میں اس مقصد کیلئے اسلامی ادیبوں کا ایک عالمگیر اجلاس 1984ء میں ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے اہل علم وادب نے اس  بین الاقوامی تنظیم کا اعلان کیا۔ادب اسلامی کی جڑوں کو پختہ کرنا اور قدیم و جدید ادب اسلامی کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرنا۔  ادب اسلامی کے مکمل نظریے کی تشکیل و تیاری اور جدید ادبی علوم وفنون  کو اسلامی مناہج  میں ڈھالنے کے لئے تراجم کرنا اس تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے۔ ادب اسلامی کا صدر دفتر  لکھنوء میں قائم ہوا مگر مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے 1999ء میں انتقال کے بعد سے یہ صدر دفتر سعودی عرب کے شہر ریاض میں منتقل کردیا گیا ہے۔
عالمی رابطہ ادب اسلامی کے اس وقت سعودی عرب، کویت، شام ، اُردن، مصر، ترکی، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، ملائشیا، مراکش اور تیونس سمیت دیگر کئی اسلامی ممالک میں شاخیں ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ کسی ایک اسلامی ملک میں اس کا مرکزی اجلاس ہوتا ہے جس میں تمام ممبر ممالک سے اس تنظیم کے صدر اور نائب صدر شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان میں عالمی رابطہ ادب اسلامی کا قیام مئی1996ء میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی خواہش اور مولانا سید محمد رابع ندویؒ کی کوششوں سے عمل میں آیا۔
 گذشتہ دنوں عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان کے زیرِ اہتمام اور پروفیسر حافظ عمار خان ناصر کی میزبانی میں برصغیر پاک و ہند کے نعتیہ اد ب کے عنوان پر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔  تقریب میںعالمی رابطہ ادب اسلامی کے مرکزی قائدین ، نامور علمی وادبی شخصیات مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز کے اساتذہ نے شرکت کرتے ہوئے نعتیہ ادب کے عنوان پر اپنے مقالہ جات پیش کئے ۔ اس موقع پر علمی وادبی شخصیت مولانا زاہدالراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نعتیہ ادب اور شاعری کے دوپہلو ہیں۔ ایک نعتیہ شاعری وہ ہے جو غزوئہ احزاب کے بعد دفاعی شاعری کی صورت میں سامنے آئی۔ جس کے بارے میں حضور ؐ نے فرمایا تھا کہ اس غزوئہ کے بعد کفر ہتھیار سے نہیں زبان سے جنگ لڑے گا۔ اس وقت بھی اسلام کفر کی زد میں تھا اور آج بھی اسلام اور اس کے عقائد و نظریات کفر کی زبان و میڈیا وار کی زد میں ہیں۔  عالمی رابطہ ادب اسلامی کے مرکزی صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی نے کہا کہ غزوئہ خندق کے بعد گویاکہ’’ رابطہ ادب اسلامی‘‘ کا باضابطہ آغاز ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ نعت خوانی اور نعت گوئی میں اسلامی آداب واحکام کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمودالحسن عارف نے اُردو شاعری میں نعتیہ ادب کا ارتقاء کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا اُردو زبان نے جتنے بڑے شاعروادیب پیش کئے ہیں عربی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان پیدا نہیں کرسکی۔اُردو زبان نے عربی اور فارسی زبان کا اثر قبول کیا ہے ۔ لفظ نعت اب صرف حضور ؐ کی ذاتِ اقدس تک محدود ہوگیا ہے۔ پروفیسر مولانا محمد یوسف خان نے محدث ، مفسر اور مفتی حضرات کی نعتیہ شاعری کے عنوان پر مقالہ پیش کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کی معروف شخصیات مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع، شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا مفتی محمد جمیل اور مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی کی عربی اُردو میں کہا گیا نعتیہ کلام کے اوصاف اور اُس کی خوبیاں بیان کیں۔ پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز نے نعت گوئی کے عنوان پرمقالہ پیش کرتے ہوئے کہا نعت نگاری اور نعت گوئی میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ نعت گوئی میں گانے کی طرز اختیار نہ کی جائے جس کا معاشرے میں عام رواج ہوتاجارہا ہے۔ نعت حضورﷺ کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرناہے۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام علی نے مولانا نعیم صدیقی کی نعتیہ شاعری اور سیرت نگاری پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ پروفیسر ارشد علی نے مولانا احمد رضا خان کے نعتیہ کلام پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عابدندیم نے راجہ رشید کے نعتیہ ادب پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ راجہ رشید کے نعتیہ ادب پر 50سے زائد کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ راجہ رشید نے قرآن وحدیث کی روشنی میں نعت گوئی کی ہے اور نعت گوئی کے علاوہ کوئی غزل، گیت اور شعر نہیں کہا۔ یہ راجہ رشید کی حضور ؐ سے بہترین عقیدت و محبت کا اظہار ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد نے اپنے مقالہ میں کہا کہ حضرت حسان ابن ثابت ؓ کی نعت اور اشعار ،نعتیہ ادب اور اُردو نعت کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ میںاور بالخصوص خواتین اور بچوں میںاسلامی ادب کے فروغ کیلئے علمائ، اساتذہ، شاعروں اور ادیبوں کو اپنا اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔

مزیدخبریں