مدارس دینیہ… اورسائنس کی تعلیم

 تحریر …حافظ محمد اسحاق جیلانی
  خالق و مالک جس نے  اس کائنات کو پیداکیا ہے اس میں علم کی تمام نشانیاں رکھی ہیں۔ دین اسلام کے ظہور کے بعد عربوں نے پوری کائنات کو اپنے حق میں عطیہ الہی تصور کیا اور اس کائنات کے  رازوں سے واقفیت کیلئے اپنی بھر پور اخلاقی و عملی توانائی صرف کر دی ۔ اس میں مبالغہ نہ ہو گا اگر میں یہ کہوں کہ عربوں نے  دوسرے علوم کے ساتھ علم سائنس کی تعمیر و ترقی میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ انہی کی فراہم کر دہ بنیادوں پر یو رپ نے سائنس کی عمارت کو پایہ تکمیل تک  پہنچایا۔ لیکن اپنی پسند اپنی تہذیب و ثقافت اور مزاج کے مطابق انہوں نے سائنس کو ایک نئے قالب میں ڈھال کر اس طرح ہمارے سامنے پیش کیا کہ خود ہم مر عوب ہو ئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صدی تک اس جدید سائنس اور اسلام کے درمیان کو ئی تضاد نہیں ۔ بلکہ سائنس علم کی وہ شاخ ہے جو طبعی اور حیاتاتی دنیا میں تحقیق  و دریافت کر تی ہے ۔ جس کیلئے تدریس میں کیا، کیوں ، کیسے ، کب ، کہاں اور کو ن جیسے سوالات  ضروری ہیں ۔ قدیم مدارس دینیہ شاید علم سائنس کی اہمیت و افادیت سے واقف تھے کیونکہ علم طب ، ریاضی اور ہیت باقاعدہ ان کے نصاب کاحصہ تھے ۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے رسالے جزئو اللطیف میں ان کتابوںکی فہرست درج کی ہے جنہیں انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں پڑھا تھا ۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بغداد کے مدارس میں  کیمیا طب اور طبیعات کے علوم پڑھائے جاتے   تھے۔
ہندوستان کے عربی مدارس میں درس نظامی یا اس کی بنیادپر مر تب کر دہ نصاب تعلیم رائج ہے ۔ درس نظامی کے حوالے سے یہ  بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نصاب میں سائنس یا دوسرے عصری علوم کی تدریس کے لیے کو ئی گنجائش نہیں ہے۔  جبکہ درس نظامی کی فہرست کتب پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو تا ہے کہ حکمت ، طب ، ریاضی اور تاریخ کی متعدد کتابیں بھی اس میں شامل ہیں۔ حضرت مو لاناشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی ؒ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ انہوں نے شرح چغمینی باقاعدہ پڑھی تھی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس علم کی دوسری کتابوں سے استفادہ کیاتھا۔ علم ریاضی میں گہری دلچسپی تھی۔  وائس چانسلر مسلم یو نیور سٹی علی گڑھ سر ضیاء الدین نے انہیں ایک  ریاضی دان تسلیم کیا ہے۔ اس جائزہ سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ قدیم مدارس میں سائنس کی باقاعدہ تدریس کانظام تھا۔ دوسری بات یہ بھی سامنے آئی کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں ہے اوراس کی ضرورت کوہردور میں محسوس کیا گیا ہے۔ البتہ درمیان میں کچھ وقت ایسا گزراجب سائنس کی تعلیم کی طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی بلکہ اس کی مخالفت ہو ئی لیکن اب سائنس کی تدریس کو مدارس اسلامیہ میں ضرور ی خیال کیاجارہاہے ۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم کس سطح سے شروع کی جائے اور کس سطح تک اس کی تعلیم دی جائے۔ دوسرامسئلہ یہ ہے کہ کو نسی سائنس پڑھائی جائے۔ وہ جو یورپ کے لوگوں نے اپنے نقطہ نظر سے مرتب کی ہے ۔ جس میں نسل انسانی کی حیاتاتی ابتداء کا ایک نظریہ گھڑ لیا گیاہے۔ اور عالم طبعی کو ایک ایسا وجو د قرار دیا گیا ہے جس کے اپنے قواعد نہیں ہیں اوراسے انسانی مسرت اورمصیبت کا کو ئی شعور نہیں ہے۔ اسی طرح کسی طبعی حادثہ کی بناپر انسانی تکلیف اورانسان کے اخلاقی عمل کے بیچ کو ئی براہ راست علاقہ نہیں ہے ۔
 قرآن کریم کی تفسیر انسان اور عالم طبعی کے درمیان مضبو ط رشتہ قائم کر تی ہے اور بتاتی ہے کہ سائنسدان اس سے کائنات کے بامقصد ہو نے کا نظریہ بھی حاصل کر سکتا ہے ۔  لہٰذا سا ئنس کی تعلیم اور  کائنات  کا علم اسلامی تناظر میں ضروری ہے۔  یہ نکتہء نظر بجا ئے خود ابتدا سے لے کر اعلی درجات تک تمام مر احل میں  یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ اس کیلئے ابتدائی مر احل میں سائنس کی تعلیم کا طریقہ تدریس اسلامی روایات پر مبنی ہو نا  ضروری ہے۔ طلباء کو بتایا جا نا چاہیئے کہ مسلمانوں کی سائنسی سر گر میاں اسلامی دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں تقر یبا ایک ہزار برس تک جاری رہیں ۔  بعض جدید فکر کے حامل مدارس کی تحریر وں اور تقریروں میں   ایسے رموز پر تفصیل سے بحث  ملتی ہے ۔جن میںچاند، سورج اور زمین کے مابین کیا رشتہ ہے رات اوردن باہم آنکھ مچولی کیوں کھیلتے ہیں ؟ ستارے اور سیارے کس طرح گردش کررہے ہیں؟ پیڑوں کی ہمارے زندگی میں کیا اہمیت ہے ؟ مو سم کیسے تبدیل ہو تے ہیں ؟ وقت کاتعین کیسے کیا جائے ؟ انسانی جسم کیا ہے ؟غذا یا خوراک کی جسم کو ضرورت اور ابتدائی طبی امدا د کس طرح دی جائے ؟ اور چھوت کی بیماریوں  ،آندھی ، بارش ، طوفان اورزلزلے کی وجوہات اور ان   سے نمٹنے کی تدابیر  بیان کی گئی ہیں ؟
 سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ سائنس کی تعلیم کس سطح سے شروع کی جائے ، ابتدا، تحتانیہ یا فو قانیہ سے یا اعلی سطح پر۔ یہاں یہ  وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں شامل کئے جانے کی گنجائش ہے یانہیں۔ زیادہ تر  علماء حضرات کا یہ خیال ہے کہ مدارس میں حسب سابق سائنس کی تدریس کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے ۔ ان کی رائے یہی ہے کہ ابتدائی (مکتب) سے سائنس کی تعلیم شروع کی جائے اور عالمیہ تک (یاثانوی تک ) اس تعلیم کو جاری رکھا جائے ۔بازار میں سائنس کی جوکتابیں دستیاب ہیں وہ ہمار ے مدارس کی ضرورت کو پور ی کر نے سے قاصر ہیں۔ ان علوم کو   جدید تقاضوں کے  مطابق اسلامی نکتہء نظر سے  ہم آہنگ کرنا ضروری  ہے۔ مثلاً ریاضی میں مسلمان ریاضی دانوں نے ابتداء یو نانی اور ہندوستانی ریاضی کی بنیاد پر کی۔ الجبرا مسلمانوں کی ایجاد ہے ۔ اس کے کچھ مسائل کے لیے خیام کی کتاب درسیات میں شامل کی جاسکتی ہے۔ اصول عدد Number Theory  غیاث الدین جمشید کاشانی اور دیگر مسلم ریاضی دانوں کی کتابوں کی بنیاد پر پڑھایا جا نا چاہیے ۔ فلکیات کیمیا ، طبیعات ، ارضیات نباتات اور حیوانات وغیرہ کو مسلم سائنسدانوں کے حوالوں کے ساتھ پڑھایا جاسکتا ہے اور درمیان میں قرآن و حدیث سے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اگر ایسی کتابیں مو جود نہیں ہیں تو یہ سائنس سے لا علم رہنے کا کو ئی بہانہ نہیں ہو سکتا بلکہ ایسی صورت میں ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ ہم کو شش کریں کہ جدید سائنس میں مہارت حاصل کر کے اسلامی علمی روایت کی روشنی میں سائنس کی کتابوں کی تدوین و ترتیب کر یں۔سائنس کی تعلیم کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے وسائل اور اساتذہ کی فراہمی کا ہے۔ سائنس کی تدریس کیلئے جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے مدارس میں بعض غلط رجحانات کا اندیشہ رہتا ہے ۔ اس لیے فی الوقت ایک صورت ممکن ہے کہ وہ مدارس جن کے پاس وسائل موجود ہیں وہ  اپنے طلبہ کا وظیفہ مقرر کر کے انہیں سائنس کی اعلی تعلیم حاصل کر نے کی تر غیب دیں۔ ایسے  طلبہ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد مدرسہ کے طلباء کو سائنس کی تعلیم دے سکیں گے ،اس طرح مدارس کا نظام تعلیم بہتر کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن