ہندو جنونیوں کا انجام ۔تاریخ کے کوڑے دان

کسی دانشور نے کتنی قیمتی بات کتنی آسانی کے ساتھ کہہ دی جو عقل و دانش کی بصیرت رکھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں اور اِس بات کالطف اُٹھا سکتے ہیں کسی نے جیسے کوزے میں سمندر کو سمو دیا ہو ’کوئی شخص کسی کا چراغ نہیں بجھاتا چراغ کے اندر تیل کی کمی چراغ کو بجھا دیتی ہے ‘بھارت کے ’سیکولرازم ‘ کا آجکل عین ایسا ہی حال ہے آہستہ آہستہ ہندو جنونی تعصب کی دلدل میں دھنستے دکھائی دیتے ہیں جبکہ باپو گاندھی جی اور جواہر لعل نہرو کے سیکولرازم کے دیش بھر میں لگائے گئے چراغ کی روشنی دن بدن کم سے کم اور مدھم سے مدھم ہوتی چلی جارہی ہے نہرو کی جگہ آج کے بھارت کی باگ دوڑ آر ایس ایس جیسی جنونی ہندو تنظیم کے ایک عام معمولی رکن (معمولی اِس معنیٰ میں کہ اُس شخص میں نہ تو کوئی سیاسی ویژن ہے نہ علم و آگہی کی بصیرت) نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہے جنوبی ایشیائی ملکوں کے درد مند اور دور اندیش اہل ِ فکر دانشوروں میں بڑی سنجیدہ تشویش کی لہر پیدا ہوگئی ہے نریندر مودی نے اگر تنگ نظری ‘ تعصب اور مسلم دشمنی کا وطیرہ ترک نہ کیا آر ایس ایس کا بنیادی رکن ہونے کی حیثیت سے تقسیم برصغیر کے صدمہ کو بھلاکردیش کی مسلمان اقلیت کے علاوہ پاکستان کے ساتھ برابری‘ عدل‘ انصاف اور بھائی چارے کی بنیاد پر پُرامن پڑوسیوں جیسے تعلقات استوار نہ کیے تو بھارت بھی سوویت یونین کی طرح کئی حصے بخروں میں تقسیم ہوسکتا ہے، چونکہ تنگ نظری ‘ تعصب اور جنونی دشمنی کے سنگھ پریوار اور ہندوتوا کے مکمل راج پاٹ کی اندرونی خواہش اور روائتی نفرتوں کے بت نہ صرف نریندرمودی کی سیاسی اوّلیت اختیار کرچکے ہیں بلکہ اب تو یہ حد ہوگئی ہے کہ بھارتی سرکار کے ایوانوں کے معاملات میں وہ جنونی ہندو جو آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں جو کوئی سرکاری آئینی عہدہ بھی نہیں رکھتے اُنہیں آجکل بھارت میں باقاعدہ سر کاری پروٹول دیا جارہا ہے، سرکاری میڈیا پر آ ر ایس ایس کے اعلیٰ عہدیداروں کے ’بھاشن ‘ نشر و ٹیلی کاسٹ ‘ ہونے لگے ہیں ایسے میں کیوں نہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بھارت حقیقت میں انتشار اور شکست و ریخت کے یقینی عمل گز رنے کو ہے جہاں ہندوتوا کے لٹھ بردار اور چھرے بردار علمبرداروں سے نہ عیسائی محفوظ نہ اُن کے گرجا گھر محفوظ ،یہ ہی حال مسلمانوں کا ہے جیسے دیکھئے وہاں وہ ہر کسی غیر ہندو بھارتی کو ’شدھی ‘ بنانے کی مہم پر نکلا نظر آتا ہے یہ مہم زور زبردستی اور دھونس کے ذریعے سے مذہب کی تبدیلی کے لئے جسے ’ گھرواپسی ‘ کے نام پر چلا ئی جا رہی ہے اور مزید کتنے دن تک سرکار کی سرپرستی میں چلائی جاتی رہے گی اِس کا جواب کسی کے پاس نہیں اگر بھارت میں کوئی اعتدال پسند کوئی روشن خیال سوسائٹی کا کوئی رکن اِس سوال کا اثبات میں جواب دیدے کہ ہاں بھارت مذہبی منافرت کے نام پر ٹوٹنے کی راہ پر چل نکلا ہے تو اُس کی زندگی کی سانسیں ’گمنامی کی تاریکی‘ میں کبھی بھی کہیں ختم کی جاسکتی ہیں امریکی صد ر باراک اُوبامہ نے اپنے دورہ نئی دہلی کے دوران موجودہ متشدد بھارتی نیتاو¿ں کے انتہا پسندانہ جنونی رویوں پر اپنی شدیداور گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اُنہیں ’نصیحت ‘ کی تھی کہ وہ اپنے عدم رواداری اور عدم برداشت کے غیر انسانی رویوں کی فی الفور اصلاح کرلیں یہ اُن کے مملکتی حق میں بہتر ہوگا‘ امریکی صدر نے صاف لفظوں میں ’گھرواپسی ‘ جیسی انسانی حقوق سے متصادم طرز ِ حکمرانی کو بھارتی معاشرہ کی یکجہتی کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا تھا مگر مجال ہے جو نئی دہلی سرکار کی کان پر جوں تک بھی رینگی ہو بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کے لئے اپنی بہو بیٹیوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا مشکل بنادیا گیا حال میں پونا میںایک کم سن مسلمان لڑکی کی عزت لوٹ لی گئی’دی ہندوڈیلی ‘ کی شائع کردہ 29 مارچ 2015کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پونا پولیس کے ایک اہل کار نے ایک پاکستانی بچی کو زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا آر ایس ایس جیسی تنظیم کے غنڈہ عناصر کو بھارت میں کھلی چھوٹ دے کر نریندرمودی نے ’سیکولر ‘ نہ سہی ایک ہندو دیش کے لئے ہی سہی عظمت وشوکت کا کوئی نیک نامی کا تاریخی کار نامہ تو انجام نہیں دیا الٹا بھارت دیش کو دنیا بھر میں جنونی متشدد ہندو ازم کا ملک بناکر مزید بدنام کردیارہا سوال جہاں تک پاکستان کو مسلسل پراکسی کی کھینچا تانی کی جنگ میں الجھائے رکھنے کا ‘ تو اِس پراکسی تصادم کے نتیجے میں بھی اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بھارت کی سلامتی کے مشیرمسٹر اجیت کا ایک بھارتی تقریب میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے المناک دہشت گردی کے واقعہ پر پاکستان کو یہ طعنہ دینا کہ ’پاکستان اِس واقعہ کے درد کو اتنی جلدی بھول گیا حد ہوگئی بے حسی کی ‘ساتھ ساتھ اُن کا یہ رویہ اختیار کرنا کہ بحیر ہ ِ عرب میں پاکستانی کشتی نے دراندازی کی کوشش کی تھی جسے بروقت تباہ کردیا گیا اجیت جی کو اب یہ پاکستان یاد دلائے کہ بقول بھارتی کوسٹ گارڈ اور بھارتی نیوی کی آپس کی پیشہ ورانہ چپقلش نے ثابت نہیں کردیا تھا کہ دھماکہ خیز کشتی کا اسکرپٹ بحیرہ عرب کے پانیوں نے کیسا صاف و شفاف کر دیا تھا؟ مسٹر ڈویل اپنے ہمنواو¿ں کے ساتھ مل کر جتنا چاہیں اب بلوچستان میں مقامی امن وامان کے لئے مسائل کھڑے کریں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ کرنے کے لئے اُنہیں بلوچستان کا میدان خالی مل جائے گا۔ نریندرمودی سمیت پوری بھارتی کابینہ کو یہ سمجھنا کیا ہمارا کام رہ گیا ہے کہ نئی دہلی سرکار پاکستان کی فکر کرنے کی بجائے بھارتی سماج میں تیز رفتاری سے سرایت کرنے والی ہندو انتہا پسندی کو روکنے کے اقداما ت کرئے، جس کی وجہ سے بھارتی اقلیتوں کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا ہوچکی ہیں ’بھارت کا خاتمہ ‘ نامی کتاب کے مصنف آنجہانی خوشونت سنگھ اگر آج حیات ہوتے تو وہ یہ خبر سن کر نجانے کیا کچھ کر لیتے؟ کہ نریندر مودی جیسے فرد کے وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھارتی فورسز کی تشکیل ِ نو یا نئے کیڈٹس کے کورسز میں اب ’رامائن ‘ بھی پڑھائی جانے لگی ہے۔ بھارتی چھاﺅنیوں میں ’ہنومان جی‘ ہندو دیوتا کے مندر قائم کیے جانے لگے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ تینوں فورسز میں ’ہندو مذہبی تہوار‘ منانا لازمی ہوگئے جبکہ مسلمان اور عیسائی بھارتی فوجیوں کے لئے اُن کے مذہبی تہوار نہیں منائے جائیں؟ جبکہ ہر عسکری یونٹس کے اسٹیشن کی صبح ’وندے ماترم‘ کی گونج سے دھمک اٹھے ، یعنی کیا دنیا یہ سمجھ لے کہ بھارتی فوج کا اب ایک عسکری مذہب ہوگا وہ مذہب صرف اور صرف ”ہندو مذہب“ ہوگا آنجہانی خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب کاآغاز اِن 7 سطروں سے کیا ’بھارت بربادی کا شکار ہو چکا ہے اِسے کوئی معجزہ ہی بچائے تو بچائے ورنہ ملک ٹوٹ جائے گا 1990 تک آر ایس ایس کے اراکین کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی (یہ تعداد25 برس قبل کی بنتی ہے) جن میں دوسروں کے علاوہ اٹل بہاری واجپائی ‘ ایل کے ایڈوانی ‘ مرلی منوہر جوشی‘ اوما بھارتی اور نریندر مودی شامل تھے میں نے ایڈوانی سے کہا تھا تم نے اِس ملک میں نفرت کے بیج بوئے جن کا نتیجہ بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں نکلا اب ہر ہوش مند اور باشعور معتدل بھارتی کا فرض ہے کہ وہ ہندو جنونیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکے۔ چونکہ ہم گجرات میں ’ہار ‘ چکے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن