یہ صلاحیت تو پنڈی والے شیخ رشید میں بھی ہے اور وہ اس کا بھرپور استعمال بھی کرتے ہیں لیکن جب وہ اپنی اس صلاحیت میں لچرپن کا استعمال کرتے ہیں توپھر وہ اپنے اس اعزاز سے محروم ہو جاتے ہیں توپھر بے اختیار جے یو آئی کے حافظ حسین احمد کو ہی اولیت حاصل ہوتی ہے وہی تو ہیں جنہیں جملے بازی میں پیر صاحب پگاڑا مرحوم کا اصلی اور حقیقی وارث اور جانشین قراردیا جا سکتا ہے سیاسی فہم و فراست میں ان کے جملے تاریخی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں تازہ ترین جملہ جو انہوں نے ہمارے دوست سابق گورنر چودھری محمد سرور کے بارے میں کہا ہے وہ سیاسی صداقت بھی ہے اور اس میں وہ تمام حقائق موجود ہیں جو شاہی خاندان کی حکومت بارے میں موجود ہیں البتہ ان کا اعتراف چودھری محمد سرور نے اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ .... گورنر نے اصولی سیاست سیکھی تھی لیکن یہاں وصولی سیاسی ہوتی ہے گورنر سرور اگر دوست کے بجائے رشتہ دار ہوتے تو ان کا یہ انجام کبھی نہ ہوتا۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اس سچائی کے بدلے میں رسوائی کس کو حاصل ہوئی ہے عوام خوب جانتے ہیں لیکن عوام کے پاس بے چارگی اور بے بسی کے سوا کچھ بھی تو باقی نہیں رہنے دیا گیا یہی تو شاہی خاندان کی حکومت کا کمال ہے جس پرکسی صدائے احتجاج کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ عوام کی آواز پر کوئی توجہ دیتے ہیں وہ اپنے کام میں صبح و شام مصروف ہیں یہ اور بات کہ پچھلے چار سال میں ان کے خزانوں میں اربوں ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں عوام غریب سے غریب تر ہو کر خودکشیوں میں زبردست اضافہ کرکے معاشی ترقی میں دن دوگنی رات چوگنی رفتار کا باعث بن رہے ہیں۔ یہی وہ شاہی خاندان ہے جن کی خواہش پر چودھری محمد سرور گورنر بنے وہ یہ سوچ کر پاکستان آئے تھے کہ وہ اپنے عوام کی خدمت کریں گے خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقی کے امکانات کو روشن کریں گے، لیکن شاہی حکومت میں اعزازات اور پروٹوکول کے شاطرانہ انداز کے باوجود انہیں ناکام و نامراد واپس پلٹناپڑا ہے۔ ایسے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
اگرچہ انہیں اندرونی اور بیرونی دوستوں نے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن جاتے ہوئے وہ جو کچھ کہہ گئے ہیں وہ کسی تازیانے سے کم نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ فیصد (اشرافیہ) نے 95 فیصد عوام کو شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جب تک نچلی سطح تک انتقال اقتدار نہیں ہو گا حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ حافظ حسین احمد کے طنزیہ جملے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شریف برادران سے کوئی گلہ ہے نہ ہی تعلقات خراب کرنا چاہتا ہوں۔
یہ کوئی خوف ہے یا مزاج آشنائی یا پھر طرز حکمرانی پر اعتراض، یہ چودھری سرور سے بھلا کوئی اور کیسے جان سکتا ہے وہ سترہ ماہ سے زائد عرصہ تک وزیراعلی ہاﺅس کے پڑوس میں موجود گورنر ہاﺅس میں تمام اختیارات کے ساتھ مقیم رہے ہیں۔ البتہ یہ الگ بات کہ وہ اپنے کسی ایک حکم پر بھی عملدرآمد نہیں کروا سکے اور دوستی ہی نبھاتے رہے۔ حالانکہ بقول ان کے انہوں نے تو چار ماہ کے بعد ہی گورنر ہاﺅس چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ کسی نظر کرم کے متمنی تھے، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ باقی عرصہ انہوں نے امیدوں کے نتیجہ خیز ہونے کی امید میں گزار دیا، حتی کہ انہیں وقت سفر یہ کہنا پڑا کہ قبضہ گروپ گورنر سے زیادہ طاقتور ہے۔
پھر اس میں اضافہ یوں بھی ہوا کہ صرف میں ہی نہیں ہر تیسرا شخص قبضہ مافیا کا شکار ہے یہ کیسے ہوا۔ یہ لمبی تفصیل ہے اور اخباری حلقے اس سے اسی طرح واقف ہیں جس طرح انہیں یہ معلوم ہے کہ قبضہ گروپ گورنر سے زیادہ طاقتور کیوں ہے اور انہوں نے شاہی خاندان کی دوستی اور محبت کو خیرباد کیوں کہا ہے؟؟
بہرحال اس وقت تو حقیقت یہی ہے کہ چودھری محمد سرور خدمت اور جذبے سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے وطن کی مٹی کو چھوڑ کر اپنی عارضی پناہ گاہ کی طرف چلے گئے ہیں جہاں ان کی عزت بھی ہے اور وسیع کاروبار بھی لیکن صرف سترہ ماہ میں عوام نے انہیں محبت اور عزت دی ہے وہ بڑے بڑے سیاستدانوں کو طویل جدوجہد اور اقتدار و اختیار کے باوجود نہیں ملی۔ یہ قدرت کے انعام کے سوا بھی کچھ نہیں مگر یہ خلوص نیت بھی تو ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جب بھی واپس آئے کسی بھی جماعت میں شامل ہوئے یا پھر آزاد حیثیت میں سیاست کا حصہ بنے عوام انہیں پنجاب کی آواز سمجھ کر سر آنکھوں پر بٹھائیں گے ان کے بالمقابل کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔ کیونکہ عوام کو پرخلوص اور دیانتدار سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔ وہ کمرشل اور خاندانی سیاستدانوں سے تنگ آ چکے ہیں عوام کی اسی خواہش نے ہی تو عمران خان سے امیدیں وابستہ کی تھیں مگر افسوس کہ انہوں نے دھرنے میں جو کچھ حاصل کیا تھا وہ سب کچھ ریحام خان کی سلامی کی نذر کر دیا۔