دور نبوی کے اسلامی انقلاب کا اگربغور جائزہ لیں تو فکری اور شعوری انقلاب ہی اس کی بنیاد نظر آتا ہے۔ ایسا انقلاب جو عرب کے صحراﺅں سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ حضورﷺ کا مکی دور بیداری شعور کا دور تھا۔ جس میں آپﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے عرب کے لوگوں میں سچائی اور حق کا شعور بیدار کیا۔ ان کے اندر باطل عقائداور ظلم کے خلاف نفرت پیدا کی۔ ہجرت سے قبل تیرہ سال کے عرصہ میں خاموش اور پر امن جدوجہد رہی اور مقتدر قوتوں سے ٹکراﺅکیے بغیر یہ انقلابی مشن جاری رہا۔ اس دوران آپﷺ کی تمام تر توجہ تعلیم و تربیت پر مرکوز رہی۔ آپﷺ نے اپنی تعلیمات کا عملی نمونہ بھی تھے۔ بیت عقبہ کے بعد آپﷺ کے مقرر کردہ مبلغین نے جا کر حضور ﷺ کی منہج پر ہی مدینہ منورہ میں دعوت اور تعلیم و تربیت کا آغاز کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک بڑی تعداد آغوش اسلام میں آ گئی۔ اس فکری اور شعوری انقلاب کے نتیجہ میں مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے لیے زمیں ہموار ہو گئی اور حضورﷺ کی ہجرت کے بعد باقاعدہ اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آ گیا ۔اس ریاست کے لیے آپﷺ کو نہ کوئی جنگ لڑنا پڑی اور نہ ہی کوئی احتجاجی تحریک چلانا پڑی ۔ یہ انقلاب مکہ و مدینہ کے لوگوں کے فکر اور شعور کے اندر بپا کیے جانے والا انقلاب تھا۔ آج پاکستان میں انقلاب اور نظام کی تبدیلی کے بہت دعوے اور چرچے ہیں ۔ لیکن کیا نظام بدل جانے اور انقلاب برپا ہونے کے بعد ہم اس قابل ہیں کہ اس نظام کو قبول کر لیں؟ کیا ہمارے اندر فرسودہ نظام سے نفرت کا وہ شعور بیدار ہو چکا ہے جس کے بعد ہم اس انقلاب کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکیں؟ کیا ہم نے انقلاب کے لیے وہ علمی اور فکری جدوجہد مکمل کر لی ہے جس کے بعد ہم نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کریں ؟ نظام کی تبدیلی اور انقلاب کا انحصار عوام کی شعوری بیداری پر ہے ۔ پاکستان کے اندر نظام بدلنے کے لیے صرف حکومت کا بدل جانا کافی نہیں بلکہ پہلے انقلاب عوام کے قلب اور دماغ میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے دھرنے اور جلسے جلوسوں کی بجائے اس طریقہ کارکی ضرورت ہے جس کا نمونہ ہمیں حضور نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ سے ملتا ہے ۔ اگرچہ تعلیمی اور شعوری انقلاب کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی کوششیں لائق صد تحسین ہیں اور عمران خان کی بیداری شعور کی جدوجہد بھی سراہے جانے کے قابل ہے ۔ انھوں نے عوام میں اپنے حقوق کے لیے شعور بیدار کر کے کم از کم سڑکوں پر نکلنے کے جمہوری حق سے روشناس کروایا۔ اپنے تمام تر وسائل بھی استعمال کیے لیکن اتنی بھرپور جدوجہدکے بعد بھی انقلاب اور نظام کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ عوام میںانقلاب کے لیے مطلوب حقیقی بیداری اور آمادگی کی کمی تھی ۔ اگر ڈاکٹر صاحب اپنی جدوجہد کے تیس سے زائد سال ایک کامیاب مثالی تعلیمی نظام کے لیے جدوجہد میں صرف کرتے ۔ جیسا کہ انھوں نے ہر صوبے میں ایک یونیورسٹی ، ہر ضلع اور تحصیل میں کالجوں کے ایک نظام کو قائم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اگراس پر پوری توجہ اور صلاحیتیں صرف کر دیتے تو آج لاکھوں افراد فکری اور شعوری انقلاب سے روشناس ہو چکے ہوتے۔ یہی طریقہ اگر عمران خان اختیار کرتے تو آج انہیں بھی کسی جلسے جلوس اور دھرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں مصطفی کمال اتاترک کا لا دینی نظا م رائج تھا اور تمام بے دین قوتوں کی پشت پناہ فوج برسر اقتدار تھی ۔ اور جبر کا نظام پوری قوت سے کار فرما تھا۔ ایسے میں بدیع الزماں سعید نورسی نے شعوری انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دی ۔ انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ قیدو بند کی صعوبتوں میں گزارا۔ اسی قید کے دوران وسائل کے نہ ہونے کے باوجود اپنے افکار نوجوانوں تک پہنچاتے رہے ۔ وہ اپنے افکار سگریٹ کی ڈبیا ، پتوں اور کپڑے کے ٹکروں پر لکھ کر خفیہ طور پر اپنے طلبا اور پیرو کاروں تک پہنچاتے رہے ۔ اور وہ ان کی نقول تیار کر کے خاموشی سے رات کے اندھیروں میں لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ انقلاب اور نظام کی تبدیلی کے لیے انھوں نے کوئی دھرنا دیا اور نہ احتجاجی تحریک چلائی۔ ان کے افکار نے بغیر کسی ٹکراﺅ کے نوجوانوں میں شعوری انقلاب پیدا کر کے نظام کی تبدیلی کی تڑپ پیدا کر دی ۔ آج ترکی میں برسر اقتدار طبقہ سعید نورسی کے پیروکار افراد پر مشتمل ہے ۔ اسی فکری انقلاب کے نتیجہ میں ترکی چند سالوں میں پورے عالم اسلا م میں ایک مثالی اور معتبر اسلامی ملک کے طور پر اپنی حیثیت منوا چکا ہے ۔پاکستان میں بھی نظام کی تبدیلی کے خواہشمندوں اور علمبرداروں کے لیے نبوی انقلاب اور ترکی میں نظام کی تبدیلی میں عملی سبق موجود ہے ۔ انقلاب کا اپنا مزاج ہے یہ دلوں کو بدلنے کا نام ہے۔ اگر نظام بدل بھی جائے گا لیکن دل نہ بدلیں،کرپشن اور بدیانتی کرنے والے دل وہی رہیں تو انقلاب پہلے قدم پر ہی نا کام ہو جائے گا ۔ اس کے لیے شعوری بیداری اور قلبی انقلاب کی ضرورت ہے ۔ عمران خان کا اسمبلیوں میں واپس جانا اور ڈاکٹر طاہر القادری کا موجودہ نظام کے تحت بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینا اگرچہ خوش آئند ہے۔ لیکن قوم ان سے امید رکھتی ہے کہ وہ احتجاجی سیاست سے نکل کر قوم کو تعمیری، فکری اور تعلیمی جدوجہد کے ذریعہ بیدار کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں گے۔ پاکستان کوپہلے تعلیمی اور شعوری انقلاب کی ضرورت ہے، بعدازاں کسی اور انقلاب کی ۔