کس کا حکم مانیں؟ پی پی کے عہدیدار اور ورکر پریشان

لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی میں اعلیٰ ترین قیادت کے اختلافات نے پارٹی کے تمام ’’رینکس‘‘ اور ورکرز کو پریشان کن صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ وہ پارٹی کے چیئرمین کی بات مانیں یا شریک چیئرمین کے ارشادات کو حرفِ آخر سمجھیں۔ اب تو صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ آصف زرداری جنہوں نے صرف ڈیڑھ سال قبل بلاول زرداری کو یہ کہہ کر میدان میں اتارا تھا کہ وہ پارٹی قیادت کے اہل ہوچکے ہیں، آج پارٹی قیادت سنبھالنے کے اہل نہیں اور چیئرمین پیپلز پارٹی سیاسی طور پر میچور نہیں ہیں۔ کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ گذشتہ برس سیلاب کے موقع پر بلاول کو سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران جو عوامی پذیرائی ملی اور جس طرح بھٹو کے نواسے کی غریب خواتین نے بلائیں لیں اس سے آصف زرداری کی پارٹی ’’کمانڈ‘‘ لرزنے لگی۔ بلاول اور آصف زرداری میں اختلاف کی ایک بڑی وجہ پارٹی سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو اہم عہدوں پر فائز کیا جانا تھا۔ بلاول بھٹو نے اس عمل کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ بلاول بھٹو کو مخدوم احمد محمود کو پہلے گورنر اور پھر جنوبی پنجاب کا صدر مقرر کرنے اور میاں منظور وٹو کو سنٹرل پنجاب کا صدر مقرر کرنے پر اعتراض تھا۔ بلاول بھٹو نے آصف زرداری سے کئی مواقع پر اس حوالے سے ضد کی تھی کہ پنجاب سے پارٹی کے ناراض رہنمائوں اور دیرینہ ورکرز کو منا کر واپس لایا جائے۔ پارٹی کے ورکرز اور رہنما جنہوں نے بھٹو کے بعد نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو کے ماتحت کام کیا ہے، پریشان ہیں کہ بلاول نے اپنی ماں کی برسی میں شرکت نہیں کی اور پھر نانا کی برسی میں الگ تقریب کا انعقاد پاکستان سے دور لندن میں کیا۔ اس سے بھی زیادہ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ نوڈیرو میں آصف زرداری کے پہلو میں بختاور اور لندن میں بلاول کے پہلو میں آصفہ بیٹھی تھیں۔ یاد رہے کہ آصفہ کے بارے میں آصف زرداری کا کہنا تھا کہ انکے بعد پارٹی کا عَلم آصفہ اٹھائیگی۔ ان حالات میں پارٹی ورکرز کو متحد رکھنا اور پارٹی مضبوط بنانا ایک مشکل کام ہے۔ تجزیہ نگار اب کہنے لگے ہیں کہ پیپلز پارٹی زوال کا شکار ہے جس کی سب سے بڑی مثال این اے 246 کے انتخابات ہیں جس میں پیپلز پارٹی نے امیدوار کھڑا کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور سندھ میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود کراچی کو ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے سپرد کردیا ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ ایم کیو ایم سے پارٹی کی غیرضروری قربت ہے جس پر بلاول بھٹو کو اعتراض ہے۔ بلاول بھٹو نے کراچی میں اپنی پہلی سیاسی رونمائی میں الطاف حسین کا نام لیکر یہ دھمکی دی تھی کہ اگر نامعلوم افراد کو نہ روکا گیا تو لندن میں جینا حرام کردونگا۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری میں سخت اختلافات اور بلاول بھٹو زرداری میں سخت اختلافات کے باوجود کچھ پارٹی رہنما یہ خوش گمانی رکھتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے درمیان ’’سب اچھا‘‘ ہے۔

ای پیپر دی نیشن