اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) بی بی سی کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ نے یمن کی صورتحال پر اپنا لائحہ عمل اس انداز میں پیش کیا ہے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یمن یا سعودی عرب میں فوری طور پر فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ بعض مبصرین اور ذرائع کی نظر میں کچھ ایسا ہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک طرف حکومت نے سیاسی مخالفین کی رائے مان لی دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات سے واقف بعض سرکاری اہلکاروں کے مطابق سعودی شاہی خاندان کو بھی ناراض نہیں کیا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے (ق) لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا ہے کہ متفقہ قرارداد کی منظوری پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔ پارلیمنٹ نے مثبت کردار ادا کیا جسے پوری قوم کی حمایت حاصل ہے۔ بی بی سی کے مطابق متفقہ قرارداد میں ان سعودی مطالبات کا ذکر موجود نہیں جو اس نے پاکستان سے بری، بحری اور فضائی افواج کی فراہمی کے بارے میں کئے تھے اور جن کا ذکر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کیا تھا۔ خواجہ آصف کی سربراہی میں وفد کے سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات کی تفصیل سے واقف ایک سرکاری اہلکار کے مطابق پاکستانی وفد میں شامل فوجی حکام بہت حد تک سعودی حکام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوچکے تھے کہ یمن کی جنگ کے بارے میں مشیروں کو طویل بریفنگ کے بعد تجزیاتی رپورٹ سعودی حکام کو بھیجی گئی تھی۔ پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی کے سرحد سے باہر پھیلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان حکام کے مطابق لڑائی میں شامل جنگجوئوںکو چونکہ اسلحہ کی مسلسل فراہمی کے آسان وسائل دستیاب نہیں اسلئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی میں بھی کمی آئیگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تجزیے کی بنیاد پر حکومت نے سعودی عرب میں فوج بھیجنے پر فوری فیصلے کے بجائے اسے طول دینے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران سعودی حکام کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ انکی سرزمین یمن کی لڑائی سے براہ راست متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ابھی تک کے حالات سے لگتا ہے کہ حکومت کی یہ پالیسی کام کررہی ہے جس سے سعودی عرب کی ناراضی کا خطرہ بھی نہیں اور اپوزیشن جماعتیںبھی خوش اور مطمئن ہیں۔